ملے بے نشاں کے نشاں کیسے کیسے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملے بے نشاں کے نشاں کیسے کیسے
by نسیم میسوری

ملے بے نشاں کے نشاں کیسے کیسے
بنے لا مکاں کے مکاں کیسے کیسے

ہوئے خاک دور جہاں کیسے کیسے
ہوئے حادثے ہیں یہاں کیسے کیسے

سنے وصل میں ہم بیاں کیسے کیسے
بہانے کئے وہ عیاں کیسے کیسے

قلق ہجر کے ہیں یہاں کیسے کیسے
گماں کرتے ہیں وہ وہاں کیسے کیسے

ہے کس کا دہن وصف لب میں تمہارے
سخنور ہوئے بے زباں کیسے کیسے

نہ شیریں ہی ہے اور نہ لیلیٰ ہے افسوس
جہاں سے گئے قدرداں کیسے کیسے

کئی کھاتے ہیں غم کئی ہیں بلانوش
ہیں اس خوان پر میہماں کیسے کیسے

گل داغ دل آہ سے کیوں نہ مرجھائے
اجاڑے چمن یہ خزاں کیسے کیسے

نصیبوں سے گھر بیٹھے آئے ہو اے جاں
کوئی مانتا ہوں میں ہاں کیسے کیسے

یہ چرخ کہن آہ چن چن کے مارا
تہ خاک ہیں نوجواں کیسے کیسے

قیامت کے مضمون ہیں لہراتے دل میں
صدف میں ہیں بحر رواں کیسے کیسے

مری ہم صفیری بھی ہے کھپر تیڑھی
ہیں غپ چپ ہی شیریں بیاں کیسے کیسے

مہ و لالہ و شمع کے داغ دیکھو
جلے عشق سے دود ماں کیسے کیسے

ہے کیوں وصف یوسف کے جو کارواں کا
جہاں سے گئے کارواں کیسے کیسے

الٰہی یہ کیا گردش آسماں ہے
جلانے لگے مہرباں کیسے کیسے

تصور سے بھی دیکھیے کیوں کمر کو
حجاب آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

ہر اک شام چلتے ہیں تیر نگہ یاں
نکلتے ہیں ابرو کماں کیسے کیسے

چھوا تھا کہ اک گھات انگئے کو ان کے
ہیں طوفاں اٹھے الاماں کیسے کیسے

میں قرباں خدائی کے وہ بت جو پوچھے
ہیں ارمان دل میں نہاں کیسے کیسے

کروں مے سے توبہ میں استغفر اللہ
لئے عہد و پیماں مغاں کیسے کیسے

امینی ہے جبریل پر گرچہ قاصد
ہمیں ہو رہے ہیں گماں کیسے کیسے

نسیمؔ ان کی بخشش بھی لا انتہا ہے
ہوئے جرم ہم سے عیاں کیسے کیسے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse