ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقاب عارض

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقاب عارض
by قربان علی سالک بیگ

ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقاب عارض
مگر سمجھتے نہیں ابھی تک تم اپنا جلوہ حجاب عارض

نہ دشت ایمن میں ذکر اس کا نہ طور ہی پر کبھی یہ چمکا
نہ ہو نظر میں جو تیرا جلوہ تو مہر کو دوں خطاب عارض

تصور ان کا ہے مجھ کو ہر دم نہ شب کو تسکیں نہ چین دن کو
ہوئی ہیں اوقات میرے بالکل تباہ کاکل خراب عارض

خوشی کی کثرت اگر ہو ان کو تو بن کے آنکھوں میں آئیں آنسو
زیادہ یاں تک ہیں اپنی حد سے نہ ٹھہرے عارض میں آب عارض

یہ رنگ بزم عدو تو دیکھو کہ لاکھ پردے کیے ہیں حائل
نقاب اٹھائے وہ گو ہیں بیٹھے مگر ہے غیرت حجاب عارض

الٰہی میری جگر فگاری رقیب سن کر انہیں سنا دیں
وہ مصلحت ہی سمجھ کے آئیں دکھانے کو ماہتاب عارض

نظر فزا ہے جہاں ہے جلوہ تمہارا احسان سب پہ ہوگا
اٹھاؤ عارض سے تم جو پردہ تو گھٹ نہ جائے گی تاب عارض

یہ نام جس کا قمر رکھا ہے مجھی سے اک داغ لے گیا ہے
سمجھ تو دیکھو سمجھ رہا ہے فلک اسی کو جواب عارض

کہیں الٰہی شب جدائی تمام ہونے کو آ گئی ہے
نمود صبح جزا ہو شاید کہ میں نے دیکھا ہے خواب عارض

ہوئی یہ حال زبوں کی شہرت کہ اس نے خجلت سے منہ چھپایا
بنا ہے رنگ شکستہ میرا بہت دنوں میں نقاب عارض

نہ پوچھو ہم سے کہ کیا سبب ہے سیاہ روزی کا اپنی سالکؔ
چمک رہا ہے بہت دنوں سے عدو پہ وہ آفتاب عارض

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse