Jump to content

ملک میں تاریخ کا معلم اول

From Wikisource
ملک میں تاریخ کا معلم اول
by مہدی افادی
319478ملک میں تاریخ کا معلم اولمہدی افادی

یورپ کے علمی قلم رو میں ایک زندہ دل طبقہ ایسا بھی ہے جو انسان کی دماغی پیداوار یعنی کتابوں کو ’’علمی حرم‘‘ کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور ان کا دلدادہ ہے۔ اس کے خیال میں کسی کتب خانہ کا ایک گوشہ جہاں اس کی منظور نظر ’’نازنینوں‘‘ کا جھرمٹ ہو اور جو ہمیشہ اس کی فرصت اور مرضی کی منتظر رہتی ہوں، اس شاہی محل سے کہیں بڑھ کر ہے جس کے لوازم عیش صرف دور سے دیکھنے کی چیز ہیں ۔

بہرحال ایک ایسا گروہ موجود ہے جو علمی دنیا میں درجۂ استغراق رکھتا ہے اور زمانہ کے سرد و گرم سے قطعاً بے پروا ہے، اس کا دائرۂ مخصوص خود ایک دنیا ہے جہاں ایسے سامانوں کی کمی نہیں، جن سے قوت احساس ہر طرح کی لذت و انبساط حاصل کرتی رہتی ہے۔ اسی حلقہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی نفسیات اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ وہ معمولی مطبوعات کو پسند نہیں کرتے، خاص خاص تصنیفات کے قیمتی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں ۔

ہندوستان میں اس قسم کے معزز شواہد بہ مشکل پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن طبقہ اعلیٰ کے مصنفین میں علامہ شبلی کی تصنیفات کو یہ امتیاز حاصل ہے، جو حسن سیرت کے ساتھ صورت کی بھی اچھی ہوتی ہیں ۔ قاعدہ یہ ہے کہ لفافہ اچھا ہو تو ملفوف کو اس سے کہیں زیادہ اچھا ہونا چاہئے۔

علامہ شبلی اپنے موضوع سخن اور اس لحاظ سے کہ انھوں نے اپنے ملکۂ راسخہ یعنی فطری قوت تصنیف سے وہی کام لیا جو ان کے دل ودماغ کا اچھے سے اچھا مصرف ہو سکتا تھا۔ ملک کے مصنفین میں یہ سرفہرست تو تھے ہی، میں دیکھتا ہوں اب بہت آگے نکلے جاتے ہیں ۔ انھوں نے فلسفۂ تاریخ کو صرف اس لحاظ سے کہ وقت کی چیز ہے، اپنا خاص فن قرار دیا اور ترتیباً جس پیمانہ پر یہ اظہار خیال کرتے رہے وہ ایک منحرف بھی تسلیم کرے گا کہ ان کی قوتوں کا صحیح سے صحیح استعمال تھا، جو خیال میں آ سکتا ہے۔ ملک میں اچھے لکھنے والوں میں ’’قوت فیصلہ‘‘ کی ہمیشہ کمی رہی، یعنی دماغوں میں اقتضائے ے وقت کی رعایت نہیں ۔ وقت ہی آگے چل کر بتائےگا کہ ان کے نتائج فکر ایک طرح کی خود رو پیداوار ہیں، جن کی شادابی صرف ایک موسمی چیز ہے۔ لیکن علامہ شبلی سے ہم کو اس قسم کی شکایت نہیں، یہ بلا بارتہدید وفرمایش جو کچھ کرتے رہتے ہیں وہ ہمارے توقعات اور استحقاق سے کہیں زیادہ ہے۔

حالتوں کا موازنہ آج کل کے عوائد رسمیہ (یعنی ایٹی کیٹ) کو دیکھنے کو خلاف شائستگی سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ تنقید کا ایک ضروری عنصر ہے، لیکن میں اس وقت ان کو ان کے دائرے کے دوسرے خلاقین سخن سے ٹکرانا نہیں چاہتا، صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ جس طرح یہ اپنے حلقہ میں غالباً سب سے کم عمر مصنف ہیں، ادبی حیثیت سے نسبتاً اتنے ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ اس دماغی فوقیت کا راز صرف یہ ہے کہ خوش نصیب شبلی نے اپنی وہبی اور اکتسابی قوتوں کی رعایت سے جو وسیع موضوع بحث اختیار کیا وہ بلا استثناء اوروں کی دسترس سے باہر تھا۔ اس سے زیادہ موزونیت لائق رشک ہے جو قواماً ان کے حصۂ تصنیف کا ایک خاصہ ہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ و لٹریچر، فلسفہ وعقائد سے متعلق جس قدر مواد یہ یکجا کرسکے، قدیم تاریخ کا گویا نچوڑ ہے۔

تاریخ اسلامی کی نسبت ایک زمانہ میں یورپ نے جس قدر متعصبانہ رائے قائم کی تھی، اب رفتہ رفتہ ان سے دست بردار ہوتا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں جوہر قسم کی دماغی ترقیات کا دور ہے، واقعات کا ایک معیار صداقت قائم ہو گیا ہے۔ ہر واقعہ کی جانچ اجتماعی، اخلاقی اور فلسفیانہ حیثیت سے کی جاتی ہے۔ چنانچہ علمائے مستشرقین کی توجہ سے جدید سلسلۂ اکتشافات میں ایک نیا لٹریچر پیدا ہو گیا ہے، جس میں ہمدردانہ التفات کے ساتھ ایک طرح کی سنجیدگی اور بلند نظری پائی جاتی ہے لیکن باوصف اس حسن ظن کے جو جماعت مستشرقین کی طرف سے پیدا ہو چکا ہے، ان کے خیالات کا بیشتر حصہ نظر ثانی چاہتا ہے۔

اس قسم کی مثالیں کم نہیں ہیں جن میں مغربی علماء کی اجتہادی لغزشیں اب بھی محسوس ہوتی ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے ہ کہ استخراج نتائج میں عمداً بے پروائی سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن علامہ شبلی نے ہم کو غیروں سے قریب قریب بے نیاز کردیا ہے۔ یہ جس طرح قدیم تاریخ اور لٹریچر کے جامع ہیں، آج کل کے فلسفیانہ انتقادات اور نکتہ سنجیوں سے آشنا ہی نہیں بلکہ یہ مذاق ان میں اس قدر رچا ہوا ہے کہ ان کے طے کردہ مسائل جو دنیا کے سامنے پیش کئے گئے ہیں، اس حد تک کامل ہیں کہ زمانۂ آئندہ بلکہ ’’بعید آئندہ‘‘ میں بھی ان پر کوئی معتد بہ اضافہ نہ ہو سکےگا۔ اسی طرح ان کے اجتہادات کا جن کو تاریخی ’’الہامات‘‘ کہئے، بیشتر حصہ میرا خیال ہے کہ مدتوں متروک ہونے کے لائق نہیں ہوگا۔ اس سے زیادہ شبلی کے غیرفانی ہونے کا ثبوت کیا ہوگا۔

اگر موجودہ نسل کے لئے دماغی اور عقلی ترقی کے ساتھ اخلاقی تکمیل کی بھی ضرورت ہے تو میں خیال کرتا ہوں کہ شبلی نے تاریخی سلسلہ میں جس قدر مذہبی لٹریچر پیدا کر دیا ہے وہ ہمارے لئے کافی سے زیادہ ہے۔ خاص کر اس جدت کے لحاظ سے فاضل شبلی نے ایک طرف تو ’’بڑے میاں‘‘ یعنی مذہب کی پگڑی نہیں اتاری اور ساتھ ہی یورپ کے نوخیز چلتے پرزوں یعنی فلسفہ اور سائنس کے سامنے تیرہ سو برس کے بوڑھے سے ہاتھ نہیں جڑوائے بلکہ دونوں میں مصافحہ کرادیا۔ یہ معتدل روش جو اس ’’ادبی نزاع‘‘ میں اختیار کی گئی ہے، لائق رشک شبلی ہی کا حصہ تھا جو ہمارے متفق علیہ پیشوائے علمی ہیں ۔

ان کی ثقاہت نے جہاں مذہب کی حق تلفی نہیں ہونے دی، سائنس و فلسفہ کی مغائرت بھی دور کر دی اور ان کو مذہب کا دست و بازو بنا دیا۔ آئندہ زمانہ میں جب ہماری عقلی ترقیات کا شباب ہوگا، شبلی کو اپنی مساعی جمیلہ کی پوری داد ملے گی، تاہم آج کل کا تعلیم یافتہ طبقہ جو عموماً مذہب سے بے پروا ہے، مذہب فطری یعنی حکیمانہ اسلام سے دست بردار نہ ہو سکےگا۔ منقول کی تطبیق کی غایت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے جو شبلی کی درد سری کا بجائے خود ایک قیمتی صلہ ہے۔

ملک کے روشن خیال طبقہ میں کہیں کہیں ایک طرح کے حکیمانہ ’’تذبذب فی المذہب‘‘ (یعنی ایگنامٹک خیالات) کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اس لئے شبلی کی ’’تنقیدات عالیہ‘‘ (ہائر کریٹی سزم) کو وہ حمایت مذہب میں چنداں وقیع نہیں سمجھتا۔ لیکن اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی نئی اپج نہیں ہے۔ شبلی سے اگر غلطی ہوئی تو صرف اس قدر کہ انھوں نے مذہب کو آج کل کی عقلیات سے ٹکرایا۔ یہ غلطی اس سے پہلے بھی جب مسلمانوں کے دن اچھے تھے، ہوچکی ہے اور علم کلام کو عباسی دور کی دماغی ترقیات کے لحاظ سے ’’یاد ایام‘‘ سمجھئے جو عقائد اسلام اور فلسفہ قدیم کے گزشتہ اختلاط کی ادبی تاریخ ہے، لیکن اس زمانہ میں اسلام کو صرف فلسفہ یعنی ایک حد تک محض اصول نظری سے سابقہ تھا۔ اس لئے جس طرح لحاف کی تیاری میں کچھ استر سے لیا، کچھ ابر ے سے اور دونوں کا جھول جھال لے کر برابر کردیا۔ دونوں حریف جو چھری کٹاری ہو رہے تھے، گلے ملوا دیے لیکن آج مذہب کو اپنے دشمن ازلی یعنی سائنس کا مقابلہ کرنا ہے جو قوی تر حریف ہے (اور) جو اپنے سوا دنیا میں کسی کو دیکھنا نہیں چاہتا۔

مذہب کے اولیات کا انحصار کلیۃً امور غیر مادی یعنی ایسی چیزوں پر ہے جو مدرکات انسانی سے باہر ہیں یعنی ہمارے حواس فطری ان کے سمجھنے بوجھنے سے عاری ہیں اور سائنس صرف مادیت سے غرض نہیں رکھتا بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ ’’عالم غیر‘‘ کا خیر سے وجود ہی نہیں ہے جس پر ہم آپ اس قدر مٹے ہوئے ہیں ۔ بہرحال فلسفہ پھر بھی اتنا برا نہیں ہے۔ ’’سنی سنائی‘‘کبھی کبھی مان لیتا ہے لیکن سائنس اتنا کٹر ہے کہ جب تک ’’آنکھوں دیکھی‘‘ نہ ہو، ہزار کہئے، کتنے ہی بڑے بڑے جبہ ودستار پیش کیجئے، مذہب کی دہائی دیجئے، ایک نہیں سنتا۔ ظاہر ہے کہ اتنا بڑا کافر برخود غلط کسی ’’شریعت سہلہ‘‘ کی گرفت میں کہاں تک آ سکتا ہے، لیکن کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم مذاہب سے عموماً دست بردار ہو جائیں ؟ اس کا فیصلہ میں انسان کی اگلی پچھلی اخلاقی تاریخ پر چھوڑتا ہوں جس کی تکمیل کی نسبت خود فلسفہ کا یہ دعویٰ ہے کہ بغیر مذہب کے ہو ہی نہیں سکتی۔

شبلی نے الکلام میں نفس موضوع کے لحاظ سے جس پیمانہ پر اظہار خیال کیا، اس کے سوا چارۂ کار ہی کیا تھا۔ آپ کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیں تو پہلے ضرورت ہے کہ بڑے میاں سے آپ کو حسن ظن بھی ہو، یہ نہیں کہ ایک دم سے پگڑی اتار لی اور دعویٰ یہ کہ ہم آپ کے سچے عقیدت کیش ہیں ۔ فرط خلوص سے لگی لپٹی نہیں رکھتے۔

طبائع انسانی کے لئے اگر مذہب کی ضرورت ہے تو اس کے مسلمات اعتقاداً جسے ایک طرح کی مجبوری کہئے، تسلیم کرنے ہوں گے۔ رہی معقول و منقول کی تطبیق، جہاں تک مذہب میں استطاعت ہے، آپ دونوں کو ٹکرا سکتے ہیں ۔ علم کلام کا اتنا ہی فرض ہے۔ شبلی حکیمانہ خیالات کے ساتھ گہرا مذاق مذہبی رکھتے ہیں اور انھوں نے جو کچھ لکھا ہے، حکمائے اسلام کی طرح ’’متکلمانہ‘‘ لکھا ہے۔ اس پر بھی لکھنؤ کے ایک مشہور انشا پرداز فاضل عصر کی مذہبی تحریرات سے عام سو ظن پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ حضرت کو ’’اعتزال‘‘ کی فکر ہے جس میں پھر بھی ایک مذہبی رنگ ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس زمانہ میں، جو سائنس کے اکتشافات عالیہ کا دور ہے، سرے سے مذہب کی جان ہی کے لالے ہیں اور آج کسی مذہب آسمانی میں اتنی قوت نہیں کہ منحرف سائنس کو زیر کر سکے۔

میں رَو میں سلسلہ سے کسی قدر دور جا پڑا، کہنا یہ تھا کہ اردو لٹریچر کے پیدا کرنے والے تھوڑے ہیں، ان میں بھی تھوڑے ہی ایسے ہیں جو آج کل کے معیار قابلیت کے لحاظ سے اہل قلم کی صف اول میں شامل ہونے کے لائق ہوں ۔ شبلی بہ لحاظ فن میرا خیال ہے صرف ہندوستان نہیں بلکہ تمام اسلامی دنیا میں کسی سے دوسرے درجہ پر نہیں ہیں ۔ اس کو میری قاصر النظری پر نہ محمول کیجئے، فلسفۂ تاریخ جو آج کل تمام علوم میں سرفہرست ہے، ایک مستقل فن ہو گیا ہے اور اس قدر اہم ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے فاضل مورخانہ موشگافیوں کو بہترین مشغلہ ہستی سمجھتے ہیں ۔

مصری اور ترکی لٹریچر میں تاریخی مذاق جس قدر موجود ہے، ہم اس سے ناواقف نہیں ہیں لیکن جن مضامین پر وہاں سرگرمی سے طبع آزمائیاں ہورہی ہیں، وہ شبلی کے ہاں فرسودہ اور مسائل ابتدائی ہیں جن کو فاضل مؤرخ کی سرسری جنبش قلم مدت ہوئی ایک سے زیادہ موقع پر طے کر چکی ہے۔ سچ یہ ہے کہ شبلی بہ لحاظ جامعیت اور وسیع النظری اور نیز مؤرخانہ تدقیق اور اکمال فن کی حیثیت سے آج یورپ کے بڑے سے بڑے مؤرخ سے پہلو بہ پہلو ہو سکتے ہیں ۔ یورپ کو شکایت ہے کہ مسلمانوں میں متقدین بلکہ متاخرین میں بھی کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جسے صحیح معنوں میں اگر حفظ روایات سے قطع نظر کی جائے تو ’’مؤرخ‘‘ کہنا درست ہو، یعنی استقصائے روایات کے سلسلہ میں جہاں اصلی ماخذوں کی چھان بین کی گئی، غیرمرتب مواد سے کسی دور میں ایسے نتائج حاصل نہیں کیے گئے جن میں طبیعت انسانی کے اقتضا، زمانہ کے ماحول اور خصائص طبعی یا قرائن عقلی سے مدد لی گئی ہو۔

ابن خلدون کا نام بار بار لیا جاتا ہے جس نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھایا مگر خود اس کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے خیالات قوت سے فعل میں نہ آ سکے۔ یہ بالکل صحیح ہے لیکن آج ہم بیسویں صدی کے ایک فاضل مؤرخ کو پیش کرتے ہیں جس کا دائرۂ معلومات اس قدر وسیع ہے کہ وہ اپنے سلسلۂ تحقیقات کی فروگذاشت کی تلافی کرتا جاتاہے اور اگر وقت نے مہلت دی اور اس کا تخیل پورا ہو سکا تو تاریخ اسلامی کے مہمات مسائل ایک ایک کرکے طے کر دیے جائیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ دلی اور لکھنؤ کے گوشوں میں بہتیرے علماء پڑے ہیں، ممکن ہے۔ لیکن کسی شخص کا دماغ دوسروں کے علوم وفنون سے بھرا ہو، اور خود اس میں تحقیق واختراع کا مادہ نہ ہو تو ایک بیکار سی چیز ہے۔ اس لئے ایک فلسفی کے خیال کے مطابق اصلی قابلیت صرف وہ وسائل یعنی طریقۂ استعمال ہے جس سے مواد گزشتہ کارآمد بنایا جاسکے۔ یہی تصرفات ہیں جن کی بنا پر ایک ادیب یا مؤرخ کو لائق سے لائق شخص پر جو صرف ’’جامع اللغات‘‘ ہو ترجیح فائقہ حاصل ہے ورنہ ظاہر ہے کہ نرے الفاظ مؤخر الذکر کے ہاں کچھ زیادہ ہی ہوتے ہیں ۔

انسانی احساسات و خیالات، تحقیقات و اختراعات کی مسلسل تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے اور کار لائل کہتا ہے کہ جس شخص کو ’’چھپے ہوئے حرفوں‘‘ کا راز معلوم ہے وہ انھیں قوت آخذہ سے اپنا کر سکتا ہے۔ صرف صدائے اصلی کی تلاش کا ذوق صحیح ہونا چاہئے۔ ہاں شبلی، فاضل شبلی ’’نقوش حرفی‘‘ کے رازدار ہیں، انہوں نے اپنے ماخذوں کی چھان بین میں صرف صدائے اصلی سے غرض رکھی ہے اور اپنے وسیع سلسلۂ تحقیقات میں زبردست قوت استقرائی کے ساتھ اسباب ونتائج کی تصریحات فلسفیانہ سے آج کے ترقی یافتہ مذاق کے مطابق اس طرح کام لے سکے جس سے ان کی آواز بازگشت تمام ملک میں گونج اٹھی اور ہندوستان کے ادبی قلم رو میں ایک نیا تاریخی دور شروع ہو گیا۔ مختصر یہ کہ آج کل کے مصنفین میں علامہ شبلی کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے جو ان کے اور ہم عصروں کے حصہ میں نہیں آیا، ان کے سخت سے سخت حریف مقابل بھی ان کی تحقیقات کی گرد کو نہیں پہونچتے۔

یہ جاننا بھی مزے کی بات ہے، اس لئے بعضوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی لیکن ہندوستان کیا اور ممالک میں بھی دوچار سے زیادہ نہیں ہیں جو مذاق موجودہ کے مطابق مسائل قدیمہ کے طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ شبلی ہم میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے تاریخ و فلسفہ میں ربط باہمی پیدا کیا اور ان جواہر عقلی کی تحلیل و ترکیب اس طرح کر سکے کہ لٹریچر میں ایک خاص امتزاج پیدا ہو گیا ہے جس کے آثار ان کے مستقل سرمایۂ تصنیفات کے سوا ان کے متفرق مضامین میں بھی ملتے ہیں جو مدتوں ان کے قلم کے سایہ میں مسلسل طور پر وقف عام ہوتے رہے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.