ملنے کے نہیں نشاں ہمارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملنے کے نہیں نشاں ہمارے
by نسیم دہلوی

ملنے کے نہیں نشاں ہمارے
کیا پوچھتے ہو مکاں ہمارے

احساں سے نہیں بدی بھی خالی
دشمن ہیں مہرباں ہمارے

پچھتاؤ گے جان لے کے دیکھو
ناحق ہیں یہ امتحاں ہمارے

بے مثل ہیں لذت سخن میں
سب اٹھ گئے ہم زباں ہمارے

آزاد کی جستجو عبث ہے
پاؤ گے پتے کہاں ہمارے

اڑتی ہے خاک اس زمیں سے
پڑتے ہیں قدم جہاں ہمارے

ناقہ لاتے ہیں اس طرف روز
محسن ہیں سارباں ہمارے

ہم سے بھی کچھ کہو عزیزو
کیا ذکر تھے شب وہاں ہمارے

ظاہر ہے جو گزر رہی ہے
کچھ حال نہیں نہاں ہمارے

بہہ گئے نسیمؔ رنگ کیا کیا
یہ دیدۂ خوں فشاں ہمارے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse