ملمع کی انگوٹھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملمع کی انگوٹھی
by اسماعیل میرٹھی

چاندی کی انگوٹھی پہ جو سونے کا چڑھا جھول
اوچھی تھی لگی بولنے اترا کے بڑا بول
اے دیکھنے والو تمہی انصاف سے کہنا
چاندی کی انگوٹھی بھی ہے کچھ گہنوں میں گہنا
وہ اور ہے میں اور یہ ذلت نہ سہوں گی
میں قوم کی اونچی ہوں بڑا میرا گھرانا
وہ ذات کی گھٹیا ہے نہیں اس کا ٹھکانا
میری سی کہاں چاشنی میرا سا کہاں رنگ
وہ مول میں اور تول میں میرے نہیں پاسنگ
میری سی چمک اس میں نہ میری سی دمک ہے
چاندی ہے کہ ہے رانگ مجھے اس میں بھی شک ہے
یہ سنتے ہی چاندی کی انگوٹھی بھی گئی جل
اللہ رے ملمع کی انگوٹھی تیرے چھل بل
سونے کی ملمع پہ نہ اترا میری پیاری
دو دن میں بھڑک اس کی اتر جائے گی ساری
کچھ دیر حقیقت کو چھپایا بھی تو پھر کیا
جھوٹوں نے جو سچوں کو چڑھایا بھی تو پھر کیا
مت بھول کبھی اصل تو اپنی اری احمق
جب تاؤ دیا جائے گا ہو جائے گا منہ فق
سچے کی تو عزت ہی بڑھے گی جو کریں جانچ
مشہور مثل ہے کہ نہیں سانچ کو کچھ آنچ
کھونے کو کھرا بن کے نکھرنا نہیں اچھا
چھوٹے کو بڑا بن کے ابھرنا نہیں اچھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse