ملتے نہیں ہو ہم سے یہ کیا ہوا وتیرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملتے نہیں ہو ہم سے یہ کیا ہوا وتیرا
by پنڈت جواہر ناتھ ساقی

ملتے نہیں ہو ہم سے یہ کیا ہوا وتیرا
ملنے لگا ہے شاید اب تم سے کوئی خیرا

آنکھوں ہی میں اڑایا نقد دل و جگر کو
وہ شوخ دل ربا ہے کیسا اٹھائی گیرا

الفت کا جرم بے شک سرزد ہوا ہے ہم سے
اس کو صغیرہ سمجھو چاہے اسے کبیرا

میدان حشر تیرا کوچہ بنا ہے قاتل
جاتا ہے اب جو کوئی آتا ہے قشعریرا

گرویدہ کر لیا ہے نیرنگئ نظر نے
کیسی ہوئی فسوں گر وہ شوخ چشم گیرا

اس شوخ دل ربا پر کیوں کر نہ ہوں فدا ہم
سج دھج ہوئی نرالی باندھا جو اس نے چیرا

منت پذیر اس کے آخر کو ہو گئے ہم
جو مدعا تھا اپنا اس نے کیا پذیرا

شاغل جو ہو گئے ہیں محمود عاقبت ہیں
سلطانہ شغل شب ہے دن کا ہوا نصیرا

تھے شیفتہ جو ساقیؔ اک مست نوش لب کے
میخانے ہی کے اندر اپنا بنا خطیرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse