ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں
by ثاقب لکھنوی

ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں
پیوند لگا دیتا میں نفس مجرد میں

بیداری فرقت میں تھا رمز قیامت کا
جاگا ہوں کہ نیند آئے تاریکئ مرقد میں

اس دفتر ہستی میں تعلیم بہت کم ہے
دو حرف نظر آئے دیباچۂ ابجد میں

گو خاک کا پتلا ہوں لیکن کوئی کیا سمجھے
میں بھی کوئی شے ہوں جو گردوں ہے مری کد میں

ہے ضبط کی فرمائش اس دل سے بہت بے جا
یہ قلزم لا ساحل کس طرح رہے حد میں

پہلو میں نہیں دل تو دل سوز ہی آ جاتا
اک شمع تو جل جاتی تاریکی مرقد میں

نالوں سے یہ کہتا ہوں ہمت سے نہ دل ہاریں
تاروں نے جگہ کر لی اس لوح زمرد میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse