ملا بھی یہ تو اسے پھر خدا نہیں ملتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملا بھی یہ تو اسے پھر خدا نہیں ملتا
by ریاض خیرآبادی

ملا بھی یہ تو اسے پھر خدا نہیں ملتا
نہیں نہیں دل بے مدعا نہیں ملتا

وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو خدا نہیں ملتا
کوئی ہمارے سوا دوسرا نہیں ملتا

مٹے ہوؤں کا الٰہی پتا نہیں ملتا
رہ عدم میں کہیں نقش پا نہیں ملتا

حنا سے خون کسی غیر کا ملا ہوگا
ہمارے خون سے رنگ حنا نہیں ملتا

زمین پر کبھی ان کے قدم نہیں پڑتے
کہ سجدہ کرنے کو بھی نقش پا نہیں ملتا

نکل کے دیکھتے کیا ہے ہوا زمانے کی
در قفس کبھی ہم کو کھلا نہیں ملتا

لحد سے اٹھ کے کہاں جائیے قیامت ہے
وہ بھیڑ ہے کہ کہیں راستہ نہیں ملتا

اچھوتے جام ہیں منت کے کچھ الگ رکھے
کسے پلائیں کوئی پارسا نہیں ملتا

یہ آس لائی ہے ساقی کے آستانے پر
در کریم سے سائل کو کیا نہیں ملتا

بری طرح لب شیریں کسی نے چوسے ہیں
کہ گالیوں میں تری اب مزا نہیں ملتا

بجا کے دیکھے ہیں ناقوس ہم نے وقت اذاں
ریاضؔ آپ کا ان سے گلا نہیں ملتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse