ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
by داغ دہلوی

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں
کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے

پس پردہ بھی لیلیٰ ہاتھ رکھ لیتی ہے آنکھوں پر
غبار ناتوان قیس جب محمل سے ملتا ہے

بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے

مجھے آتا ہے کیا کیا رشک وقت ذبح اس سے بھی
گلا جس دم لپٹ کر خنجر قاتل سے ملتا ہے

بظاہر با ادب یوں حضرت ناصح سے ملتا ہوں
مرید خاص جیسے مرشد کامل سے ملتا ہے

مثال گنج قاروں اہل حاجت سے نہیں چھپتا
جو ہوتا ہے سخی خود ڈھونڈ کر سائل سے ملتا ہے

جواب اس بات کا اس شوخ کو کیا دے سکے کوئی
جو دل لے کر کہے کم بخت تو کس دل سے ملتا ہے

چھپائے سے کوئی چھپتی ہے اپنے دل کی بیتابی
کہ ہر تار نفس اپنا رگ بسمل سے ملتا ہے

عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہل ہستی سے
مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے

غضب ہے داغؔ کے دل سے تمہارا دل نہیں ملتا
تمہارا چاند سا چہرہ مہ کامل سے ملتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse