ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی چشم حیراں کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی چشم حیراں کو
by خواجہ میر درد

ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی چشم حیراں کو
عیاں جب ہر جگہ دیکھوں اسی کے ناز پنہاں کو

تجھے اے شمع کیا دیکھیں زمانے کو دکھانا ہے
ہمیں جوں کاغذ آتش زدہ اور ہی چراغاں کو

نہ تنہا کچھ یہی اطفال دشمن ہیں دوانوں کے
بھرے ہے کوہ بھی دیکھا تو یاں پتھروں سے داماں کو

جھمکتے ہیں ستاروں کی طرح سوراخ ہستی کے
چھپایا گو کہ جوں خورشید میں داغ نمایاں کو

نہ واجب ہی کہا جاوے نہ صادق ممتنع اس پر
کیا تشخیص کچھ ہم نے نہ ہرگز شخص امکاں کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse