مقصد حاصل نہیں ہو یا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مقصد حاصل نہیں ہو یا ہو
by برجموہن دتاتریہ کیفی

مقصد حاصل نہیں ہو یا ہو
جو ہونا ہے جلد اے خدا ہو

الفت ہے پاس وضع کا نام
مرتے مر جاؤ پر نباہو

دل میں نہیں خوب میل رکھنا
جو شکوہ گلہ ہو برملا ہو

کیا ہوتا ہے فرش بوریا سے
لازم ہے کہ قلب بے ریا ہو

اک جام ہی تو پلا دے للہ
اے پیر مغاں تیرا بھلا ہو

درکار اسے مدد ہے کس کی
جس کو اللہ کا آسرا ہو

اس دل کی جلن جو دیکھ پائے
شمع سوزاں چراغ پا ہو

کیا اور بھلا کہوں میں تم کو
تم حضرت عشق بد بلا ہو

کہنے کو تو کہہ گئے ہو سب کچھ
اب کوئی جواب دے تو کیا ہو

دل زیست سے سرد ہو گیا ہے
اے سوز جگر ترا برا ہو

بے عیب کوئی نہیں ہے کیفیؔ
گر ہو تو وہ ذات کبریا ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse