مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
by مرزا محمد رفیع سودا

مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا

پردے کو تعین کے در دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا

ٹک دیکھ صنم خانۂ عشق آن کے اے شیخ
جوں شمع حرم رنگ جھلکتا ہے بتاں کا

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب چشم کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا

دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کا بازار
لیکن نہیں خواہاں کوئی واں جنس گراں کا

ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا

سوداؔ جو کبھو گوش سے ہمت کے سنے تو
مضمون یہی ہے جرس دل کی فغاں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse