مغز بہار اس برس اس بن بچا نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مغز بہار اس برس اس بن بچا نہ تھا
by ولی عزلت

مغز بہار اس برس اس بن بچا نہ تھا
چین جبیں بن ایک گل اب کی ہنسا نہ تھا

جب لگ میں صبح حسن بتوں سے ملا نہ تھا
دل ہوئے گل سا ہات سے میرے گیا نہ تھا

کیا کی وفا کہ موج گہر سا ہے سر سے بند
خنجر جز ایک دم کا مرا آشنا نہ تھا

جا کر فنا کے اس طرف آسودہ میں ہوا
میں عالم عدم میں بھی دیکھا مزا نہ تھا

اس یار کاروانی کے وقت وداع ہائے
بے نالہ ایک اشک مرا جوں درا نہ تھا

ہوتے ہی جلوہ گر ترے اے آفتاب رو
سینے میں جیسے شبنم گل دل رہا نہ تھا

منہ موڑ بت کدہ سے حرم کو چلا ہے شیخ
عزلتؔ مگر ہے کعبہ ہی میں یہاں خدا نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse