معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں
معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں
ایسا گیا کہ پھیر نہ پائی خبر کہیں
عالم میں ہیں اسیر محبت کے ہر کہیں
لیکن ستم کسو پہ نہیں اس قدر کہیں
کھولی تھی چشم دید کو تیری پہ جوں حباب
اپنے تئیں میں آپ نہ آیا نظر کہیں
جوں غنچہ فکر جمع نہ کر ٹک تو گل کو دیکھ
قسمت کی کھو سکے ہے پریشانی زر کہیں
رہنے دو میری نعش کو ہو جائے تا غبار
لے جائے گی اڑا کے نسیم سحر کہیں
مصرف ہے سب یہ بالش صیاد کا ترے
بسمل نہ بھریو خون سے تو بال و پر کہیں
روتی ہے کیا گلوں کو تو شبنم ادھر تو دیکھ
ٹکڑے ہے اس طرح سے کسی کا جگر کہیں
کرتا تھا کل گلی میں وہ اپنی خرام ناز
اس میں جو آ کے پڑتی ہے مجھ پر نظر کہیں
کہنے لگا یہ دیکھ کے احوال کو مرے
بد نام تو کسی کے تئیں یاں نہ کر کہیں
کیا ہتیا تجھے یہیں دینی ہے اے عزیز
اتنا پڑا ہے ملک خدا جا کے مر کہیں
قائمؔ یہ فیض صحبت سوداؔ ہے ورنہ میں
طرحی غزل سے میرؔ کی آتا تھا بر کہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |