معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں
by قائم چاندپوری

معلوم کچھ ہوا ہی نہ دل کا اثر کہیں
ایسا گیا کہ پھیر نہ پائی خبر کہیں

عالم میں ہیں اسیر محبت کے ہر کہیں
لیکن ستم کسو پہ نہیں اس قدر کہیں

کھولی تھی چشم دید کو تیری پہ جوں حباب
اپنے تئیں میں آپ نہ آیا نظر کہیں

جوں غنچہ فکر جمع نہ کر ٹک تو گل کو دیکھ
قسمت کی کھو سکے ہے پریشانی زر کہیں

رہنے دو میری نعش کو ہو جائے تا غبار
لے جائے گی اڑا کے نسیم سحر کہیں

مصرف ہے سب یہ بالش صیاد کا ترے
بسمل نہ بھریو خون سے تو بال و پر کہیں

روتی ہے کیا گلوں کو تو شبنم ادھر تو دیکھ
ٹکڑے ہے اس طرح سے کسی کا جگر کہیں

کرتا تھا کل گلی میں وہ اپنی خرام ناز
اس میں جو آ کے پڑتی ہے مجھ پر نظر کہیں

کہنے لگا یہ دیکھ کے احوال کو مرے
بد نام تو کسی کے تئیں یاں نہ کر کہیں

کیا ہتیا تجھے یہیں دینی ہے اے عزیز
اتنا پڑا ہے ملک خدا جا کے مر کہیں

قائمؔ یہ فیض صحبت سوداؔ ہے ورنہ میں
طرحی غزل سے میرؔ کی آتا تھا بر کہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse