مطمئن اپنے یقیں پر اگر انساں ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مطمئن اپنے یقیں پر اگر انساں ہو جائے
by احسن مارہروی

مطمئن اپنے یقیں پر اگر انساں ہو جائے
سو حجابوں میں جو پنہاں ہے نمایاں ہو جائے

اس طرح قرب ترا اور بھی آساں ہو جائے
میرا ایک ایک نفس کاش رگ جاں ہو جائے

وہ کبھی صحن چمن میں جو خراماں ہو جائے
غنچہ بالیدہ ہو اتنا کہ گلستاں ہو جائے

عشق کا کوئی نتیجہ تو ہو اچھا کہ برا
زیست مشکل ہے تو مرنا مرا آساں ہو جائے

جان لے ناز اگر مرتبۂ عجز و نیاز
حسن سو جان سے خود عشق کا خواہاں ہو جائے

میرے ہی دم سے ہے آباد جنوں خانۂ عشق
میں نہ ہوں قید تو بربادی زنداں ہو جائے

ہے ترے حسن کا نظارہ وہ حیرت افزا
دیکھ لے چشم تصور بھی تو حیراں ہو جائے

دید ہو بات نہ ہو آنکھ ملے دل نہ ملے
ایک دن کوئی تو پورا مرا ارماں ہو جائے

میں اگر اشک ندامت کے جواہر بھر لوں
توشۂ حشر مرا گوشۂ داماں ہو جائے

لے کے دل ترک جفا پر نہیں راضی تو مجھے
ہے یہ منظور کہ وہ جان کا خواہاں ہو جائے

اپنی محفل میں بٹھا لو نہ سنو کچھ نہ کہو
کم سے کم ایک دن احسنؔ پہ یہ احساں ہو جائے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse