مطلب کی بات شکل سے پہچان جائیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مطلب کی بات شکل سے پہچان جائیے
by ریاض خیرآبادی

مطلب کی بات شکل سے پہچان جائیے
میں کیوں کہوں زبان سے خود جان جائیے

آئے وہ نزع میں بھی نہ حسرت نکالنے
اب زیر خاک لے کے سب ارمان جائیے

اس بھولی بھولی شکل کے ہو جائیے نثار
ان بھولی بھولی باتوں کے قربان جائیے

بانہیں گلے میں ڈالیے بھی اب ہنسی خوشی
یہ ہے شب وصال کہا مان جائیے

کیا تھا جو مسکراتے ہوئے کہہ گئے ابھی
خاک آ کے میرے در کی ذرا چھان جائیے

مہماں نواز ان سا کوئی دوسرا نہیں
جی میں ہے ان کے گھر کبھی مہمان جائیے

ہے قصد آج حضرت دل ان کی بزم کا
اللہ آپ کا ہے نگہبان جائیے

جا بیٹھیے تنک کے ذرا مجھ سے پھر الگ
بے کچھ کہے سنے بھی برا مان جائیے

بدیمن میرے حق میں ہے صبح شب وصال
کھولے ہوئے نہ بال پریشان جائیے

کیا تاب ہے ریاضؔ تمہاری زبان کی
رنگینئی کلام کے قربان جائیے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse