مضطرب ہوں اب یہ جی کی بات ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مضطرب ہوں اب یہ جی کی بات ہے
by قربان علی سالک بیگ

مضطرب ہوں اب یہ جی کی بات ہے
عفو کیجے بے خودی کی بات ہے

سیکڑوں عشاق کے توڑے ہیں دل
کیا تمہاری نازکی کی بات ہے

کیا عجب پوچھے نہ کوئی حشر میں
ایک یہ بھی بے کسی کی بات ہے

جس فغاں سے مانگتے تھے سب پناہ
اب وہ اک بے طاقتی کی بات ہے

مدتیں گزریں وصال یار کو
میری نظروں میں ابھی کی بات ہے

کہتے ہیں انجام اس کا موت ہے
جس قدر غم ہو خوشی کی بات ہے

اضطراب شوق میں کہنی پڑی
جو تری آزردگی کی بات ہے

اے دل امید اس سے ہے تاثیر کی
یہ فغاں ہے یا ولی کی بات ہے

پھرتے ہیں عہد وفا سے ہم کوئی
یہ بھی تم سے آدمی کی بات ہے

سچ کہا ہے دل کو ہے اک دل سے راہ
ان کے لب پر میرے جی کی بات ہے

غیر سے کچھ کہہ کے مجھ سے کہتے ہیں
تم کو کیا مطلب کسی کی بات ہے

وعدہ کیوں کرتے ہو کہہ دو گے ابھی
یاد کس کو ہے کبھی کی بات ہے

مجھ پہ وہ ہنگامہ گزرا ہے کہ لوگ
کل کہیں گے آج ہی کی بات ہے

دہر میں سالکؔ یہ پھیلا ہے نفاق
دوستی بھی دشمنی کی بات ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse