مصیبت جس سے زائل ہو رہی سامان کر دے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مصیبت جس سے زائل ہو رہی سامان کر دے گا
by شاد عظیم آبادی

مصیبت جس سے زائل ہو رہی سامان کر دے گا
نہ گھبرانا خدا سب مشکلیں آسان کر دے گا

خرابات جہاں میں کون ہے دل سوز ساقی سا
اگر ترچھٹ بھی دینا ہے تو تجھ کو چھان کر دے گا

قناعت کی بھی دولت ہو تو استغنا نہیں لازم
جسے تو نفع سمجھا ہے یہی نقصان کر دے گا

جگہ دل میں نہ دے شوق نموداری بری شے ہے
یہی چسکا تجھے برباد اے نادان کر دے گا

کہوں گا آج سے میں صاحب اعجاز ناصح کو
اگر میرے دل مضطر کا اطمینان کر دے گا

تمناؤں کی مہمانی تصور کے حوالے کر
کہ جو ساماں مناسب ہے وہی سامان کر دے گا

متاع بے بہا سے کم نہ جان اے چشم اشکوں کو
یہی رونا ترا خالی تری دوکان کر دے گا

کوئی گر سلطنت بھی دے تو واپس کر نہ لے اے دل
سبک ہر طرف تجھ کو غیر کا احسان کر دے گا

کہے دیتا ہوں قاتل لے خبر جاں باز کی اپنے
فنا شوق شہادت میں کسی دن جان کر دے گا

تری رو پوشیاں اے حسن کب بیکار جائیں گی
یہی پردہ عیاں عالم میں تیری شان کر دے گا

یقیں کر لے کہ خود وہ جلوہ گر پردے میں ہے ورنہ
یہی ظالم گماں تیرا تجھے حیران کر دے گا

غزل سے کیا مراد اے شادؔ ہے ارباب معنی کی
کسی دن تصفیہ اس کا مرا دیوان کر دے گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse