مصیبتیں تو اٹھا کر بڑی بڑی بھولے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مصیبتیں تو اٹھا کر بڑی بڑی بھولے
by حفیظ جونپوری

مصیبتیں تو اٹھا کر بڑی بڑی بھولے
مگر فراق کی ایذا نہ اک گھڑی بھولے

نہ ہوگی اس لب رنگیں کی آب و تاب نصیب
نہ اپنے رنگ پہ پھولوں کی پنکھڑی بھولے

کسی نے پیار سے باہیں گلے میں ڈال جو دیں
تمام ہجر کے صدمے ہم اس گھڑی بھولے

ابھی وہ یاد ہیں ساماں ہمیں اسیری کے
ابھی نہ طوق نہ بیڑی نہ ہتھ کڑی بھولے

تمہیں جو دیکھ لیا غم غلط ہوا اپنا
تمہیں جو پا گئے سب رنج اس گھڑی بھولے

بری بلا ہے یہ چشم سیاہ کی گردش
اسے جو دیکھ لے آہو تو چوکڑی بھولے

گری تھی شیخ کی تسبیح میکدے میں رات
خبر نہیں کہ کہاں نشے میں چھڑی بھولے

حفیظؔ وہ دم رخصت یہ کہتے جاتے ہیں
کہ میری یاد نہ دل سے کوئی گھڑی بھولے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse