مشکل ہے کہ پہلو سے جدا دل نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مشکل ہے کہ پہلو سے جدا دل نہیں ہوتا
by جمیلہ خدا بخش

مشکل ہے کہ پہلو سے جدا دل نہیں ہوتا
اور میرے ستانے سے وہ غافل نہیں ہوتا

پردے میں اگر اس کے مرا دل نہیں ہوتا
آئینہ رخ یار کے قابل نہیں ہوتا

جب قصد مصمم ہے تو ہر کار ہے آساں
جو کام کہ مشکل ہے وہ مشکل نہیں ہوتا

گر پردہ نشینی تجھے منظور تھی دلبر
دل میرا ترے واسطے محمل نہیں ہوتا

مے خانہ کو جاتا ہوں یہ تکرار عبث ہے
ناصح تو کسی طور سے قائل نہیں ہوتا

سفاک کہا میں انہیں ہنس کے وہ بولے
ہر صاحب شمشیر تو قاتل نہیں ہوتا

دیدار طلب کا طالب ہے اسے جلوہ دکھا دے
عاشق تو زر و مال کا سائل نہیں ہوتا

وہ نور مبیں جو کہ تجلئ لقا ہے
اس کا بجز آدم کوئی حامل نہیں ہوتا

میرا تو پتا خاک بھی رہتا نہ جمیلہؔ
گر فضل الٰہی مرے شامل نہیں ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse