مشام بلبل میں رشک گل کی ہنوز بو بھی نہیں گئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مشام بلبل میں رشک گل کی ہنوز بو بھی نہیں گئی ہے
by کرامت علی شہیدی

مشام بلبل میں رشک گل کی ہنوز بو بھی نہیں گئی ہے
ابھی وہ نام خدا ہے غنچہ نسیم چھو بھی نہیں گئی ہے

نہ عشق سرمے کا نے مسی کا نہ شوق غمزے کا نے ہنسی کا
گماں ہو گر تم کو آرسی کا سو رو بہ رو بھی نہیں گئی ہے

بلا کو اس کی خبر ہے کہتے ہیں کس کو معشوق کیا ہے عاشق
ہنوز کانوں میں اس پری کے یہ گفتگو بھی نہیں گئی ہے

یقیں نہیں مجھ کو قیس گریاں کے حال سے اس کو آگہی ہو
نکل کے مطلب سے اپنے لیلیٰ کنار جو بھی نہیں گئی ہے

شہیدیؔ اتنی گماں پرستی نشہ میں سب بھول بیٹھے ہستی
ہوئی ہے اس سے ہی تم کو مستی جو تا گلو بھی نہیں گئی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse