مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں
by آغا شاعر قزلباش

مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں
دو آڑے سیدھے رکھ لیے تنکے جہاں کہیں

پھولوں کی سیج پھولوں کی ہیں بدھیاں کہیں
کانٹوں پہ ہم تڑپتے ہیں او آسماں کہیں

جاتے کدھر ہو تم صف محشر میں خیر ہے
دامن نہ ہو خدا کے لیے دھجیاں کہیں

پہرا بٹھا دیا ہے یہ قید حیات نے
سایہ بھی ساتھ ساتھ ہے جاؤں جہاں کہیں

بس مجھ کو داد مل گئی محنت وصول ہے
سن لے غزل یہ بلبل ہندوستاں کہیں

شاعرؔ وہ آج پھر وہیں جاتے ہوئے ملے
دشمن کے سر پہ ٹوٹ پڑے آسماں کہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse