Jump to content

مسٹر حمیدہ

From Wikisource
مسٹر حمیدہ (1955)
by سعادت حسن منٹو
325216مسٹر حمیدہ1955سعادت حسن منٹو

رشید نے پہلی مرتبہ اس کو بس اسٹینڈ پر دیکھا، جہاں وہ شیڈ کے نیچے کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی۔ رشید نے جب اسے دیکھا تو وہ ایک لحظے کے لیے حیرت میں گم ہوگیا۔ اس سے قبل اس نے کوئی ایسی لڑکی نہیں دیکھی تھی جس کے چہرے پر مردوں کی مانند داڑھی اور مونچھیں ہوں۔

پہلے رشید نے سوچا کہ شاید اس کی نگاہوں نے غلطی کی ہے۔ عورت کے چہرے پر بال کیسے اگ سکتے ہیں۔ پر جب اس نے غور سے دیکھا تو اس لڑکی نے باقاعدہ شیو کر رکھی تھی اور سر مئی غبار اس کے گالوں اور ہونٹوں پر موجود تھا۔

رشید نے سمجھا کہ شاید ہیجڑا ہو، مگر نہیں۔۔۔وہ ہیجڑا نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس میں ہیجڑوں کی سی مصنوعی نسوانیت کے کوئی آثار نہیں تھے۔ وہ مکمل عورت تھی ۔۔۔ناک نقشہ بہت اچھا تھا۔۔۔ کولہے چوڑے چکلے۔۔۔ کمر پتلی۔۔۔ سینہ جوانی سے بھرپور۔۔۔ بازو سڈول، غرضیکہ اس کے جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر نسوانیت کا عمدہ نمونہ تھا۔

ایک صرف اس کی داڑھی اور مونچھوں نے سب کچھ غارت کر دیا تھا۔ رشید سوچنے لگا۔۔۔ قدرت کی یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک اچھی بھلی نوجوان خوبصورت لڑکی کو بد نما بنا دیا۔ رشید کے دماغ میں کئی خیال اوپر تلے آئے اور وہ بوکھلا گیا۔ وہ سوچتا تھا:

’’کیا اس لڑکی کی زندگی اجیرن ہو کے نہیں رہ گئی!‘‘

’’صبح اٹھ کر جب اسے استرا پکڑ کر شیو کرنا پڑتی ہوگی تو اسے کیا محسوس ہوتا ہوگا۔۔۔ کیا اس وقت اس کے جی میں جھنجھلا کر انتقامی خواہش پیدا نہ ہوتی ہوگی کہ وہ گھس کھدے کی طرح اپنے گال اور ہونٹ چھیل ڈالے۔‘‘

’’ایک عورت کے لیے یہ کتنا بڑا عذاب ہے کہ خارپشت کی مانند اس کے گالوں پر دوسرے روز نکیلے بال اگ آئیں۔‘‘

’’اگر مردوں کے مانند عورتوں کے بھی داڑھی مونچھ اگتی تو کوئی ہرج نہیں تھا پر یہاں ازل سے عورتیں ان بالوں سے بے نیاز ہی رہی ہیں۔‘‘

’’جہاں تک میں سمجھتا ہوں، عورتوں کے چہرے پر بالوں کا ہونا کوئی معیوب چیز نہیں ،لیکن مصیبت تو یہ ہے کہ ہم لوگ یہ دیکھنے کے عادی نہیں۔‘‘

’’صنف نازک، آخر صنفِ نازک ہے، اس میں شک نہیں۔ اس لڑکی میں نسوانیت کے تمام جوہر موجود ہیں، پھر یہ داڑھی مونچھ کس لیے اگ آئی ہے۔۔۔ نظر بٹو کے طور پر۔۔۔ اس کی کوئی تشریح و توضیح تو ہونی چاہیے، بیکار میں ایک خوبصورت شے کو بھونڈا بنا دیا، یہ کہاں کی شرافت ہے۔‘‘

’’اب ایسی لڑکی سے شادی کون کرے گا جو ہر روز صبح سویرے اٹھ کر، استرا ہاتھ میں پکڑ کر شیو کر رہی ہو۔‘‘

’’یہ لڑکی مونچھیں نہ مونڈے اور انہیں بڑھا لے۔۔۔ تو کیا اس سے خوف نہیں آئے گا۔۔۔ آپ بے ہوش نہ ہوں،لیکن چند لمحات کےلیے آپ کے ہوش و حواس ضرور جواب دے جائیں گے۔۔۔ آپ اپنے ہونٹوں پر انگلیاں پھیریں گے جہاں مونچھیں منڈی ہوں گی۔۔۔ مگر آپ کی صنف مقابل اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہی ہوگی۔‘‘

بس آگئی۔۔۔ وہ لڑکی اس میں سوار ہو کر چلی گئی۔ رشید کو بھی اسی بس سے جانا تھا لیکن وہ اپنے خیالوں میں اس قدر غرق تھا کہ اس کو بس کی آمد کا پتہ چلانہ اس کے جانے کا۔

تھوڑی دیر کے بعد جب وہ لڑکی کو ایک نظر اور دیکھنے کے لیے پلٹا تو وہ موجود نہیں تھی ۔ اس کا ذہن اس قدر مضطرب تھا کہ اس نے اپنا کام ملتوی کر دیا اور گھر چلا آیا۔ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹ کر اس نے مزید سوچ بچار شروع کر دی۔ اس کو اس لڑکی پر بہت ترس آرہا تھا، بار بار قدرت کی بے رحمی پر لعنتیں بھیجتا تھا کہ اس نے کیوں نسوانیت کے اتنے اچھے اور خوبصورت نمونے کو خود ہی بنا کر اس پر سیاہی کا لیپ کر دیا، آخر اس میں کیا مصلحت تھی، اب اس شکل میں اس سے شادی کون کرے گا، قدرت نے کیا اس کے لیے کوئی ایسا مرد پیدا کر رکھا ہے جو اسے قبول کرلے گا لیکن وہ سوچتا کہ قدرت اتنی دور اندیش نہیں ہوسکتی۔‘‘

اس کی بہن آئی۔۔۔ دوپہر ہو چکی تھی۔۔۔ اس نے رشید سے کہا، ’’بھائی جان۔۔۔ چلیے کھانا کھا لیجیے۔‘‘رشید نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور اس کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے چہرے پر بھی بال ہیں۔

’’سلیمہ!‘‘

’’جی!‘‘

’’کچھ نہیں۔۔۔ لیکن نہیں ٹھہرو۔۔۔ کیا تمہاری مونچھیں ہیں؟‘‘

سلیمہ جھینپ گئی۔

’’جی ہاں۔۔۔ بال اگتے ہیں۔‘‘

رشید نے اس سے پوچھا، ’’تو۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہیں الجھن نہیں ہوتی ان بالوں سے؟‘‘ سلیمہ نے اور زیادہ جھینپ کر جواب دیا، ’’ہوتی ہے بھائی جان۔‘‘

’’تو انہیں تم کیسے صاف کرتی ہو۔۔۔ بلیڈ سے؟‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ ایک چیز ہے جسے بے بی ٹچ کہتے ہیں۔۔۔ اس کو تھوڑی دیر ہونٹوں پر گھسنا پڑتا ہے۔‘‘

’’تو بال اڑ جاتے ہیں؟‘‘

’’اڑتے وڑتے خاک بھی نہیں، دوسرے تیسرے روز پھر نمودار ہو جاتے ہیں بڑی مصیبت ہے۔ بعض اوقات تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

سلیمہ نے دردناک لہجہ میں جواب دیا،’’تکلیف ہوتی ہے بہت، جب بال اکھڑتے ہیں تو چھینکیں آتی ہیں اور چھینکوں کے ساتھ آنکھوں میں پانی اتر آتا ہے۔۔۔ معلوم نہیں اللہ میاں مجھے کن گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔‘‘

رشید نے تھوڑے توقف کے بعد اپنی بہن سے پوچھا، ’’تمہاری کسی اور سہیلی کی بھی داڑھی اور مونچھیں ہیں؟‘‘

’’مونچھیں تو کئی لڑکیوں کی دیکھی ہیں پر داڑھی میں نے کبھی کسی عورت کے چہرے پر نہیں دیکھی، ایک دو بال ٹھوڑی پر دیکھنے میں آئے ہیں جو وہ موچنے یا ہاتھ سے اکھاڑ پھینکتی ہیں، یہ آپ نے کیسی گفتگو آج شروع کر دی، چلیے کھانا کھا لیجیے۔‘‘

رشید نے کچھ دیر سوچا، ’’نہیں، میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا، میرا معدہ ٹھیک نہیں ہے‘‘ رشید کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس نے بالوں کی پڈنگ کھائی ہے جو ہضم ہونے میں ہی نہیں آتی۔اس کے سارے جسم پر تیز تیز نکیلے بال یوں رینگ رہے تھے جیسے خاردار چیونٹیاں۔ جب سلیمہ چلی گئی تو رشید نے پھر سوچنا شروع کر دیا، لیکن سوچنے سے کیا ہوسکتا تھا، اس لڑکی کے چہرے کے بال تو دور نہیں ہوسکتے تھے۔ اس امر کا رشید کو کامل یقین تھا لیکن پھر بھی وہ سوچے چلا جارہا تھا، جیسے وہ کوئی بہت بڑا معمّا حل کررہا ہے۔

رشید کو داخلے کی درخواست دینا تھی۔ اس نے بی اے کا امتحان راولپنڈی سے پاس کیا تھا۔ اب وہ چاہتا تھا کہ لاہور میں کسی کالج میں داخل ہو جائے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم کےلیے انگلستان چلا جائے جہاں اس کے والد پرائمری کونسل میں پریکٹس کرتے تھے۔

اس روز مونچھوں اور داڑھی والی لڑکی کے باعث نہ جاسکا۔ دوسرے روز وہ بس کے بجائے تانگے میں گیا۔ اس نے چونکہ بی اے کا امتحان بڑے اچھے نمبروں پر پاس کیا تھا اس لیے اسے داخلے میں کوئی دِقت محسوس نہ ہوئی۔ وہ داڑھی مونچھوں والی لڑکی اب رشید کے دل و دماغ سے قریب قریب محو ہو چکی تھی ،لیکن ایک دن اس نے اس کو کالج میں دیکھا ،لڑکے اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔

ایک نے آوازہ کسا، مسٹر حمیدہ! ‘‘دوسرے نے کہا،’’ ایک ٹکٹ میں دو مزے ہیں۔۔۔ عورت کی عورت اور مرد کا مرد۔ ‘‘تیسرے نے قہقہہ لگایا،’’ عجائب گھر میں رکھنا چاہیے تھا ایسی شخصیت کو۔ ‘‘اور وہ بیچاری خفیف ہو رہی تھی، اس کی پیشانی پسینے سے ترتھی۔ رشید کو اس پر بہت ترس آیا۔ اس کے جی میں آئی کہ آگے بڑھ کر ان تمام لڑکوں کا سر پھوڑ دے جو اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ مگر وہ کسی مصلحت کی بنا پر خاموش رہا۔

جب لڑکے چلے گئے، اور اس لڑکی نے اپنے دوپٹے سے آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو خشک کیے تو وہ جرأت سے کام لے کر اس کے پاس گیا اور بڑے ملائم لہجے میں اس سے مخاطب ہوا، ’’آپ یہاں کس کلاس میں پڑھتی ہیں؟‘‘

اس نے تنگ آ کر کہا، ’’کیا آپ بھی میرا مذاق اڑانے آئے ہیں؟ ‘‘ رشید نے اپنا لہجہ اور ملائم کر دیا، ’’جی نہیں، آپ مجھے اپنا دوست یقین کیجیے۔‘‘ اس نے، جس کا نام حمیدہ تھا۔۔۔ نفرت کی نگاہوں سے رشید کو دیکھا۔

’’مجھے کسی دوست کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’یہ آپ کی زیادتی ہے، ہر شخص کو دوست اور ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اس وقت مناسب نہیں سمجھتا کہ آپ کے مضطرب دماغ کو اپنی باتوں سے اور زیادہ مضطرب کر دوں، ویسے میں آپ سے پھر درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے اپنا دوست یقین کیجیے۔‘‘

یہ کہہ کر رشید چلا گیا۔

اس کے بعد متعدد مرتبہ اس نے حمیدہ کو دیکھا جو بی اے میں پڑھتی تھی۔ سارے کالج میں اس کی داڑھی مونچھوں کے چرچے تھے، لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ لڑکوں کی آوازہ بازی کی عادی ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب اس نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ اس کے چہرے پر کوئی بال نہیں ہے۔

وہ ہوسٹل میں رہتی تھی۔ ایک دفعہ وہ شدید طور پر بیمار ہوگئی، دس پندرہ دن تک بستر میں لیٹنا پڑا۔ رشید نے کئی بار ارادہ کیا کہ وہ اس کی بیمار پرسی کے لیے جائے مگر اس کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ وہ مشتعل ہو جائے گی کیونکہ اسے کسی کی ہمدردی پسند نہ تھی۔وہ چاہتی تھی کہ اس کی کشتی ،ٹوٹی پھوٹی، جیسی بھی ہے اسے اس کے سوا اور کوئی کھینے والا نہ ہو۔ لیکن ایک دن مجبور ہو کر اس نے چپراسی کے ہاتھ ایک رقعہ رشید کے نام بھیجا۔۔۔ جس میں یہ چند الفاظ مرقوم تھے:

’’رشید صاحب!

میں بیمار ہوں، کیا آپ چند لمحات کے لیے میرے کمرے میں تشریف لا سکتے ہیں۔ ممنون و متشکر ہوں گی۔

حمیدہ‘‘

رشید یہ رقعہ ملتے ہی ہوسٹل میں گیا، بڑی مشکلوں سے حمیدہ کا کمرا تلاش کیا، اندر داخل ہوا تو اس نے پہلے یہ سمجھا کہ کوئی مرد جس نے کئی دنوں سے شیو نہیں کی ،کمبل اوڑھے لیٹا ہے مگر اس نے اپنا ردِ عمل ظاہر نہ ہونے دیا۔ چار پائی کے ساتھ ہی کرسی پڑی تھی۔ رشید اس پر بیٹھ گیا۔ حمیدہ مسکرائی۔

’’میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ مجھے بخار کے باعث بہت نقاہت ہوگئی ہے اور شیو نہیں کرسکی۔ کیا آپ میرے لیے یہ زحمت برداشت کر سکیں گے؟‘‘

رشید نے کمرے میں ادھر ادھر دیکھا۔۔۔ شیو کا سامان کھڑکی کی سل پر موجود تھا۔ٹین میں گرم پانی لا کر اس نے حمیدہ کے چہرے کے بال نرم کیے، صابن ملا۔ اچھی طرح جھاگ پیدا کی اور پھر پانچ منٹ کے اندر اندر شیو بنا ڈالی۔ پھر تولیے سے اس کا چہرہ خشک کیا اور شیو کا سامان صاف کر نے کے بعد وہیں رکھ دیا جہاں سے اس نے اٹھایا تھا۔ حمیدہ نے اپنا نحیف ہاتھ گالوں پر پھیرا، اور پھر رشید سے کہا۔

’’شکریہ!‘‘

اب دونوں ایک دوسرے کے دوست ہوگئے۔رشید نے ایم اے اور حمیدہ نے بی اے پاس کر لیا، رشید کو فوراً بہت اچھی ملازمت مل گئی۔

اب وہ ایک نہیں، روزانہ دو شیو بناتا تھا!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.