مست نگاہ ناز کا ارماں نکالیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مست نگاہ ناز کا ارماں نکالیے
by ساحر دہلوی

مست نگاہ ناز کا ارماں نکالیے
بے خود بنا کے بزم سے اے جاں نکالیے

حسن نظارہ سوز کی ہیں لن ترانیاں
ارمان دید موسی عمراں نکالیے

پنہاں ہے کفر عشق میں ایمان عاشقاں
ظلمت سے نور چشمۂ حیواں نکالیے

دم بھر میں دھوئے جائیں گے سب داغ معصیت
یک قطرہ اشک تجربہ ساماں نکالیے

توحید میں ہے نقش دو رنگی حجاب ذات
ذوق نظر کا حوصلہ اے جاں نکالیے

جب جلوہ ہائے وادیٔ ایمن نظر میں ہوں
خاطر سے وہم روضۂ رضواں نکالیے

دل کو بنا کے نقطۂ پرکار عافیت
پائے طلب بہ ہمت مرداں نکالیے

ذکر خفی ازل سے ہے ورد دل و زباں
شک ہے تو تن سے تار رگ جاں نکالیے

کونین عین علم میں ہے جلوہ گاہ حسن
جیب خرد سے عینک عرفاں نکالیے

ہر جام میں ہے عکس رخ یار جلوہ گر
اے دل سبیل صحبت رنداں نکالیے

مقبولیت سخن کی ہے ساحرؔ جو رنگ بزم
رنگ عیار طبع سخنداں نکالیے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse