مست سحر و توبہ کناں شام کا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مست سحر و توبہ کناں شام کا ہوں میں
by مرزا محمد رفیع سودا

مست سحر و توبہ کناں شام کا ہوں میں
قاضی کے گرفتار نت اعلام کا ہوں میں

بندہ کہو خادم کو چاکر کہو مجھ کو
جو کچھ کہو سو ساقیٔ گلفام کا ہوں میں

خدمت میں مجھے عشق کی ہے دل سے ارادت
نے معتقد کفر نہ اسلام کا ہوں میں

یک روز حلال اس کو بھی میں کر کے نہ کھایا
نوکر جو خرابات میں دو جام کا ہوں میں

نے فکر ہے دنیا کی نہ دیں کا متلاشی
اس ہستئ موہوم میں کس کام کا ہوں میں

یک رنگ ہوں آتی نہیں خوش مجھ کو دو رنگی
منکر سخن و شعر میں ایہام کا ہوں میں

مطلوب دعا حق میں نہیں اپنے کسو کی
طالب لب محبوب سے دشنام کا ہوں میں

بندہ ہے خدا کا تو یقیں کر کہ بتاں کا
بندہ یہ جہاں بے زر و بے دام کا ہوں میں

ہے شیشۂ مے عینک پیری مجھے سوداؔ
نظارہ کن اب شیب کے ایام کا ہوں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse