مستمنداں کو ستایا نہ کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مستمنداں کو ستایا نہ کرو
by فائز دہلوی

مستمنداں کو ستایا نہ کرو
بات کو ہم سے درایا نہ کرو

دل شکنجے میں نہ ڈالو میرا
زلف کو گوندھ بنایا نہ کرو

حسن بے ساختہ بھاتا ہے مجھے
سرمہ انکھیاں میں لگایا نہ کرو

تم سے مجھ دل کو بہت ہے امید
مجھ سے مسکیں کو کڑھایا نہ کرو

بے دلاں سوں نہ پھرا دو مکھڑا
ہم سے تم آنکھ چرایا نہ کرو

مخلص اپنے کو نہ مارو ناحق
حق اخلاص بھلایا نہ کرو

عشق میں فائزؔ شیدا ممتاز
اس کوں سب ساتھ ملایا نہ کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse