مسافر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مسافر
by مجاز لکھنوی

مسافر یوں ہی گیت گائے چلا جا
سر رہ گزر کچھ سنائے چلا جا

تری زندگی سوز و ساز محبت
ہنسائے چلا جا رلائے چلا جا

ترے زمزمے ہیں خنک بھی تپاں بھی
لگائے چلا جا بجھائے چلا جا

کوئی لاکھ روکے کوئی لاکھ ٹوکے
قدم اپنے آگے بڑھائے چلا جا

حسیں بھی تجھے راستے میں ملیں گے
نظر مت ملا مسکرائے چلا جا

محبت کے نقشے تمنا کے خاکے
بنائے چلا جا مٹائے چلا جا

قدامت حدیں کھینچتی ہی رہے گی
قدامت کی بنیاد ڈھائے چلا جا

قسم شوق کی فطرت مضطرب کی
یوں ہی نت نئی دھن میں گائے چلا جا

جو پرچم اٹھا ہی لیا سرکشی کا!
اسے آسماں تک اڑائے چلا جا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse