مزے لوں درد کے میں تھوڑے تھوڑے ظلم سہ سہ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مزے لوں درد کے میں تھوڑے تھوڑے ظلم سہ سہ کر
by داغ دہلوی

مزے لوں درد کے میں تھوڑے تھوڑے ظلم سہ سہ کر
ستم کیجے تو تھم تھم کر جفا کیجے تو رہ رہ کر

ملے تھے آج مدت میں بہت روئے بہت تڑپے
وہ درد عشق سن سن کر ہم اپنا درد کہہ کہہ کر

ہوئی ہے شمع محفل تو شریک گریۂ عاشق
تجھے اے قلقل مینا کہا تھا کس نے قہہ قہہ کر

چھپایا زلف نے چہرہ تو شوخی نے کیا ظاہر
ہزاروں بار نکلا وصل کی شب چاند گہہ گہہ کر

تڑپنے میں مزہ آتا ہے اس کم بخت کے ہم کو
اگر دل یاس سے بیٹھا ابھارا ہم نے کہہ کہہ کر

یہ جانا تھا نہ آئیں گے تو کیوں جانے دیا ان کو
یہی اے داغؔ پچھتاوا مجھے آتا ہے رہ رہ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse