مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں
by جلیل مانکپوری

مزے بیتابیوں کے آ رہے ہیں
وہ ہم کو ہم انہیں سمجھا رہے ہیں

ابھی کل تک تھے کیسے بھولے بھالے
ذرا ابھرے ہیں آفت ڈھا رہے ہیں

کہا اس نے سوال وصل سن کر
کہ مجھ سے آپ کچھ فرما رہے ہیں

وہ بجلی ہیں تو ہوں ان کو مبارک
مجھے کس واسطے تڑپا رہے ہیں

مجھے تو انتظار چارہ گر ہے
الٰہی غش پہ غش کیوں آ رہے ہیں

رہے دامن بھرا ان کا ہمیشہ
لحد پر پھول جو برسا رہے ہیں

سنا کر قصۂ پروانہ و شمع
ہمارے دل کو وہ گرما رہے ہیں

دو روزہ حسن پر پھولے ہیں کیا گل
بڑے کم ظرف ہیں اترا رہے ہیں

کبھی ہم نے پیا تھا بادۂ عشق
جلیلؔ اس کے مزے اب آ رہے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse