مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو
by بخش ناسخ

مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو
نہیں ہے نشے کی کچھ قدر اگر خمار نہ ہو

نہ روئے تا کوئی عاشق یہ حکم ہے اس کا
کہ شمع بھی مری محفل میں اشک بار نہ ہو

جو ہچکی آئی تو خوش میں ہوا کہ موت آئی
کسی کو یار کا اتنا بھی انتظار نہ ہو

ذقن ہے سیب تو عناب ہے لب شیریں
نہیں ہے سرو وہ خوش قد جو میوہ دار نہ ہو

وہ ہوں میں مورد نفرت کہ درکنار ہے یار
پئے فشار کبھی گور ہم کنار نہ ہو

نہ آئے کنج لحد میں بھی مجھ کو خواب عدم
اگر سرہانے کوئی خشت کوئے یار نہ ہو

برنگ حسن بتاں ہے دل شگفتہ مرا
جو اس چمن میں خزاں ہو تو پھر بہار نہ ہو

گئی ہے کیسی زمانے سے رسم سرگرمی
عجب نہیں ہے جو پتھر میں بھی شرار نہ ہو

نہ ہنسنے سے کبھی ہم راز پوش واقف ہوں
برنگ غنچہ جگر جب تلک فگار نہ ہو

تری مژہ کی جو تشبیہ اس سے ترک کریں
کسی کے تیر سے کوئی کبھی فگار نہ ہو

دم اخیر تو کر لیں نظارہ جی بھر کے
الٰہی خنجر سفاک آب دار نہ ہو

یہی ہے قلزم غم میں مری دعا یا رب
قیام اس میں کوئی بھی حباب دار نہ ہو

وہ صبح سینۂ صد چاک میں ہے داغ جنوں
کہ جس سے دیدۂ خورشید بھی دو چار نہ ہو

ہوس عروج کی لے جائیں گر یہ دنیا سے
کبھی بلند ہوا سے کوئی غبار نہ ہو

کمال صورت بے درد سے تنفر ہے
نہ دیکھیں ہم کبھی اس گل کو جس میں خار نہ ہو

ہزاروں گور کی راتیں ہیں کاٹنی ناسخؔ
ابھی تو روز سیہ میں تو بے قرار نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse