مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے
by محمد ابراہیم ذوق

مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے
کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے

مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے

غرض تھی کیا ترے تیروں کو آب پیکاں سے
مگر زیارت دل کیوں کہ بے وضو کرتے

عجب نہ تھا کہ زمانے کے انقلاب سے ہم
تیمم آب سے اور خاک سے وضو کرتے

اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے

سمجھ یہ دار و رسن تار و سوزن اے منصور
کہ چاک پردہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے

یقیں ہے صبح قیامت کو بھی صبوحی کش
اٹھیں گے خواب سے ساقی سبو سبو کرتے

نہ رہتی یوسف کنعاں کی گرمئ بازار
مقابلے میں جو ہم تجھ کو روبرو کرتے

چمن بھی دیکھتے گلزار آرزو کی بہار
تمہاری باد بہاری میں آرزو کرتے

سراغ عمر گزشتہ کا کیجئے گر ذوقؔ
تمام عمر گزر جائے جستجو کرتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse