Jump to content

مزدوروں کا گیت

From Wikisource
مزدوروں کا گیت
by مجاز لکھنوی
304531مزدوروں کا گیتمجاز لکھنوی

محنت سے یہ مانا چور ہیں ہم
آرام سے کوسوں دور ہیں ہم
پر لڑنے پر مجبور ہیں ہم
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

گو آفت و غم کے مارے ہیں
ہم خاک نہیں ہیں تارے ہیں
اس جگ کے راج دلارے ہیں
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

بننے کی تمنا رکھتے ہیں
مٹنے کا کلیجہ رکھتے ہیں
سرکش ہیں سر اونچا رکھتے ہیں
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

ہر چند کہ ہیں ادبار میں ہم
کہتے ہیں کھلے بازار میں ہم
ہیں سب سے بڑے سنسار میں ہم
مزدور میں ہم مزدور ہیں ہم

جس سمت بڑھا دیتے ہیں قدم
جھک جاتے ہیں شاہوں کے پرچم
ساونت ہیں ہم بلونت ہیں ہم
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

گو جان پہ لاکھوں بار بنی
کر گزرے مگر جو جی میں ٹھنی
ہم دل کے کھرے باتوں کے دھنی
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

ہم کیا ہیں کبھی دکھلا دیں گے
ہم نظم کہن کو ڈھا دیں گے
ہم ارض و سما کو ہلا دیں گے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

ہم جسم میں طاقت رکھتے ہیں
سینوں میں حرارت رکھتے ہیں
ہم عزم بغاوت رکھتے ہیں
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

جس روز بغاوت کر دیں گے
دنیا میں قیامت کر دیں گے
خوابوں کو حقیقت کر دیں گے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

ہم قبضہ کریں گے دفتر پر
ہم وار کریں گے قیصر پر
ہم ٹوٹ پڑیں گے لشکر پر
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.