مزدور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مزدور
by سیماب اکبرآبادی

گرد چہرے پر پسینے میں جبیں ڈوبی ہوئی
آنسوؤں میں کہنیوں تک آستیں ڈوبی ہوئی

پیٹھ پر نا قابل برداشت اک بار گراں
ضعف سے لرزی ہوئی سارے بدن کی جھریاں

ہڈیوں میں تیز چلنے سے چٹخنے کی صدا
درد میں ڈوبی ہوئی مجروح ٹخنے کی صدا

پاؤں مٹی کی تہوں میں میل سے چکٹے ہوئے
ایک بدبو دار میلا چیتھڑا باندھے ہوئے

جا رہا ہے جانور کی طرح گھبراتا ہوا
ہانپتا گرتا لرزتا ٹھوکریں کھاتا ہوا

مضمحل واماندگی سے اور فاقوں سے نڈھال
چار پیسے کی توقع سارے کنبے کا خیال

اپنے ہم جنسوں کی بے مہری سے مایوس و ملول
صفحۂ ہستی پر اک سطر غلط حرف فضول

اپنی خلقت کو گناہوں کی سزا سمجھے ہوئے
آدمی ہونے کو لعنت اور بلا سمجھے ہوئے

زندگی کو ناگوار اک سانحہ جانے ہوئے
بزم کبر و ناز میں فرض اپنا پہچانے ہوئے

راستے میں راہگیروں کی نظر سے بے نیاز
شورش ماتم سے نغموں کے اثر سے بے نیاز

اس کے دل تک زندگی کی روشنی جاتی نہیں
بھول کر بھی اس کے ہونٹوں پر ہنسی آتی نہیں

ایک لمحہ بھی نہیں فکر معیشت سے نجات
صبح ہو یا شام ہے تاریک اس کی کائنات

دیکھ اے قارون اعظم دیکھ اے سرمایہ دار
نا مرادی کا مرقع بے کسی کا شاہکار

گو ہے تیری ہی طرح انساں مگر مقہور ہے
دیکھ اے دولت کے اندھے سانپ یہ مزدور ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse