مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے
by آغا اکبرآبادی

مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے
نمک زخم جگر پر اور ڈالے جس کا جی چاہے

جگر موجود ہے تو وہ بنا لے جس کا جی چاہے
گلا حاضر ہے خنجر آزما لے جس کا جی چاہے

اگر ہے حسن کا دعویٰ مہ و خورشید دونوں میں
کف پا سے تمہارے منہ ملا لے جس کا جی چاہے

یہ مشت استخواں اپنے کسی کے کام میں آئیں
ہما ہو یا سگ دل دار کھا لے جس کا جی چاہے

اگر ہے زندگی باقی تو ہم حسرت نکالیں گے
دل پر آرزو پر خاک ڈالے جس کا جی چاہے

فقیروں کو نہیں کچھ زینت دنیا سے مطلب ہے
میں خوش کمبل میں ہوں اوڑھے دوشالے جس کا جی چاہے

جو روشن دل میں ان کی روشنی چھپتی نہیں ہرگز
مہ تاباں پہ صاحب خاک ڈالے جس کا جی چاہے

شکایت مجھ کو دونوں سے ہے ناصح ہو کہ واعظ ہو
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھوں سر پھرا لے جس کا جی چاہے

میں ہوں برگ خزاں افتادہ میں مردود دہقاں ہوں
گرا ہوں ان کی نظروں سے اٹھا لے جس کا جی چاہے

نہیں ہوتا کبھی آب رواں پر شک نجاست کا
مرے اشکوں کے دریا میں نہا لے جس کا جی چاہے

چمن میں گل کے مرجھانے سے آغاؔ ہو گیا ثابت
بسان غنچہ دم بھر مسکرا لے جس کا جی چاہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.