مزا بے ہوشیٔ الفت کا ہوشیاروں سے مت پوچھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مزا بے ہوشیٔ الفت کا ہوشیاروں سے مت پوچھو
by میر حسن دہلوی

مزا بے ہوشیٔ الفت کا ہوشیاروں سے مت پوچھو
عزیزاں خواب کی لذت کو بے داروں سے مت پوچھو

ہمیں کچھ دخل ان باتوں میں سنتے ہو نہیں مطلق
حقیقت بے وفائی کی وفاداروں سے مت پوچھو

جو پوچھو تو عزیزاں دل سے پوچھو یا کہ تم ہم سے
ہماری اور اس کی بات اغیاروں سے مت پوچھو

گئے وے دن جو رہتے تھے جہاں آباد میں ہم بھی
خرابی شہر کی صحرا کے آواروں سے مت پوچھو

گلوں کو کب خبر ہے حال زار عندلیبوں سے
حقیقت مفلسوں کی آہ زر داروں سے مت پوچھو

وہ دل رکھتے ہیں اپنا پاس اپنے بلکہ غیروں کا
حقیقت بے دلوں کی آہ دل داروں سے مت پوچھو

خبر دل کی اگرچہ ہو مرے اشکوں سے تم سن لو
یہ واقف خوب ہیں اس گھر سے ہرکاروں سے مت پوچھو

انھوں کا جل رہا ہے دل خدا جانے کہ کیا بولیں
مرا احوال کوئی میرے غم خواروں سے مت پوچھو

یہ اپنے حال ہی میں مست ہیں ان کو کسی سے کیا
خبر دنیا وما فیہا کی مے خواروں سے مت پوچھو

ہوا ہے ان دنوں وہ آشناؤں سے بھی بیگانہ
خرابی کو حسنؔ کی آج کل یاروں سے مت پوچھو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse