مر گئے پر بھی نہ ہو بوجھ کسی پر اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مر گئے پر بھی نہ ہو بوجھ کسی پر اپنا
by امداد علی بحر

مر گئے پر بھی نہ ہو بوجھ کسی پر اپنا
روح کے ساتھ ہوا ہو تن لاغر اپنا

بے طرح دل میں بھرا رہتا ہے زلفوں کا دھواں
دم نکل جائے کسی روز نہ گھٹ کر اپنا

یار سوتا نہیں منہ کر کے ہماری جانب
کبھی کروٹ نہیں لیتا ہے مقدر اپنا

تم جو دو پھول چڑھاؤ تو خوشی کے مارے
قبر کھل جائے یہ پھولے تن لاغر اپنا

انتظام آپ کی سرکار میں یوں لازم ہے
بند و بست آپ کا گھر میں رہے باہر اپنا

حور بھی تم ہو نگاہوں میں پری بھی تم ہو
اب تو اے جان دل آیا ہے تمہیں پر اپنا

نور برساتی ہے زلفوں کی گھٹا چہرے پر
پاؤں اس کوچے میں پھسلے گا مقرر اپنا

نیند فرقت میں کہاں موت سے آنے والی
گھر سے بہتر ہے جو تکیے میں ہو بستر اپنا

خانہ برباد کیا عشق نے طفلی سے ہمیں
کہ مٹا بیٹھی گھروندے کی طرح گھر اپنا

اب نہ کچھ بولتے بنتی ہے نہ چپ رہتے ہمیں
نہ دل اپنا نظر آتا ہے نہ دلبر اپنا

وعدۂ وصل اگر آج بھی پورا نہ ہوا
یہ سمجھ لیجئے وعدہ ہے برابر اپنا

خوبرو کچھ بھی اگر بندہ نوازی فرمائیں
مالداروں کو کریں بندۂ بے زر اپنا

بے گلا کاٹے ہوئے رات نہیں کٹنے کی
صدقہ ابرو کا دیے جائیے خنجر اپنا

ڈور ہیں سلک گہر پر کہیں اشعار اے بحرؔ
قدرداں ہو تو سنائیں اسے جوہر اپنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse