Jump to content

مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات

From Wikisource
مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
by فانی بدایونی
299790مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیاتفانی بدایونی

مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

اثر عشق تغافل بھی ہے بیداد بھی ہے
وہی تقصیر ہے تعزیر بدل جاتی ہے

کہتے کہتے مرا افسانہ گلہ ہوتا ہے
دیکھتے دیکھتے تقدیر بدل جاتی ہے

روز ہے درد محبت کا نرالا انداز
روز دل میں تری تصویر بدل جاتی ہے

گھر میں رہتا ہے ترے دم سے اجالا ہی کچھ اور
مہ و خورشید کی تنویر بدل جاتی ہے

غم نصیبوں میں ہے فانیؔ غم دنیا ہو کہ عشق
دل کی تقدیر سے تدبیر بدل جاتی ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.