مر کے بھی قامت محبوب کی الفت نہ گئی
Appearance
مر کے بھی قامت محبوب کی الفت نہ گئی
ہو چکا حشر بھی لیکن یہ قیامت نہ گئی
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
بوسہ لے کر جو مکرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں
شاعری کا اثر اور جھوٹ کی عادت نہ گئی
داغ مٹتے نہ سنا دل سے تری حسرت کا
آئی جس گھر میں پھر اوس گھر سے یہ دولت نہ گئی
پاس بیٹھے بھی تو کیا جلد اٹھے گھبرا کر
میرا سودا تو گیا آپ کی وحشت نہ گئی
نہ ہوا صاف دل یار کسی طرح جلالؔ
خاک میں مل گئے ہم اس کی کدورت نہ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |