مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
by فانی بدایونی

مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
یعنی وہ اضطراب کی صورت نہیں رہی

ہر لمحۂ حیات رہا وقف کار شوق
مرنے کی عمر بھر مجھے فرصت نہیں رہی

ایک نالۂ خموش مسلسل ہے اور ہم
یادش بخیر ضبط کی طاقت نہیں رہی

وہ عہد دل فریبئ تاثیر اب کہاں
مدت سے آہ آہ کی حسرت نہیں رہی

دل اور ہوائے سلسلۂ جنبانئ نشاط
کیوں پاس وضع غم تجھے غیرت نہیں رہی

ہر بے گناہ سے وعدۂ بخشش ہے روز حشر
گویا گناہ کی بھی ضرورت نہیں رہی

اے عرض شوق مژدہ کہ دل چاک ہو گیا
تکلیف پردہ دارئ حسرت نہیں رہی

پتھرا گئی تھی آنکھ مگر بند تو نہ تھی
اب یہ بھی انتظار کی صورت نہیں رہی

عبرت نے بیکسی کا نشاں بھی مٹا دیا
اڑتی تھی جس پہ خاک وہ تربت نہیں رہی

محشر میں بھی وہ عہد وفا سے مکر گئے
جس کی خوشی تھی اب وہ قیامت نہیں رہی

کس منہ سے غم کے ضبط کا دعویٰ کرے کوئی
طاقت بقدر حسرت راحت نہیں رہی

فانیؔ امید مرگ نے بھی دے دیا جواب
جینے کی ہجر میں کوئی صورت نہیں رہی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse