مر کر بھی ہے تلاش مجھے کوئے یار کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مر کر بھی ہے تلاش مجھے کوئے یار کی  (1934) 
by ابراہیم عاجز

مر کر بھی ہے تلاش مجھے کوئے یار کی
مٹی خراب کیوں نہ ہو میرے غبار کی

وعدہ بھی کر کے آئے نہ اک شب وہ میرے گھر
چھٹکی نہ چاندنی قمر گلعذار کی

کچھ تار پیرہن سے نہیں امتیاز اب
حالت نہ پوچھئے مرے جسم نزار کی

آنا نہ تھا تو خط ہی کوئی آپ بھیجتے
تسکین کچھ تو ہوتی دل بے قرار کی

نرگس ہے شکل چشم تمنا بعینہ
لالہ بھی ہے شبیہ دل داغدار کی

گلدستہ پیش کیجئے لالہ کے پھولوں کا
سننی ہوں گالیاں جو کسی گلعذار کی

کیوں اس کے پیچھے ہوتی ہے حیران اے صبا
ملنے کی گرد بھی نہیں میرے غبار کی

وہ خاکسار تھے نہ ہوا سے ہوئی بلند
مرنے کے بعد خاک ہمارے مزار کی

وعدہ خلاف یار سے کہتا نہیں کوئی
طاقت نہیں رہی مجھے اب انتظار کی

دل کا اب آنکھوں سے یہ تقاضا ہے رات دن
تصویر سامنے رہے ہر دم نگار کی

غربت میں کیوں وطن کی تمنا نہ کیجئے
کیا کیا اذیتیں نہ سہیں دشت خار کی

یوسف عزیز مصر تھے حاصل تھی سلطنت
اس جاہ پر بھی چاہ تھی اپنے دیار کی

فرقت میں زندگانئئ شیریں ہے زہر آب
خواہش ہو خاک مجھ کو مے خوش گوار کی

عاجزؔ ہماری آنکھیں ترستی ہی رہ گئیں
نادیدوں کو نصیب رہی دید یار کی

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse