مر کر ارے واعظ کوئی زندہ نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مر کر ارے واعظ کوئی زندہ نہیں ہوتا
by ریاض خیرآبادی

مر کر ارے واعظ کوئی زندہ نہیں ہوتا
وہ حشر مزے کا ہے جو برپا نہیں ہوتا

بت توڑنے سے بت کدہ کعبہ نہیں ہوتا
پہلے کبھی ہوتا ہو اب ایسا نہیں ہوتا

سب حشر میں ہیں آج ہمیں زیر لحد ہیں
کیا جانئے کیوں حشر ہمارا نہیں ہوتا

ہوتی ہے جو شیشے میں تو ہوتی نہیں کچھ فکر
تھوڑی سی بھی ہو تو غم فردا نہیں ہوتا

ٹھکراتے نہیں پائے حنائی سے وہ سر کو
روشن کبھی قسمت کا ستارا نہیں ہوتا

سن لیتے ہیں چپکے سے موذن کی ہم اے شیخ
جب ہاتھ میں ناقوس کلیسا نہیں ہوتا

آنے کو تو آتی ہیں جنوں خیز بہاریں
کیا جانئے اب کیوں ہمیں سودا نہیں ہوتا

میخانے میں کیوں یاد خدا ہوتی ہے اکثر
مسجد میں تو ذکر مے و مینا نہیں ہوتا

اللہ دکھائے نہ برا وقت کسی کو
کوئی بھی زمانے میں کسی کا نہیں ہوتا

ٹھکراتے ہوئے ڈرتے ہو کیوں میری لحد کو
ٹھوکر سے تمہاری کوئی زندہ نہیں ہوتا

آقا سے ریاضؔ آپ تو کہتے نہیں کچھ بھی
اوروں سے گلہ کام ہمارا نہیں ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse