مر رہتے ہیں در پر ترے دو چار ہمیشہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مر رہتے ہیں در پر ترے دو چار ہمیشہ
by جوشش عظیم آبادی

مر رہتے ہیں در پر ترے دو چار ہمیشہ
ہے جور و جفا تجھ کو سزا وار ہمیشہ

عاشق ترا مرنے کو ہے تیار ہمیشہ
دکھلا نہ مژہ خنجر خوں خار ہمیشہ

اک چھیڑ نکالے ہے نئی یار ہمیشہ
رہتا ہے مرے درپئے آزار ہمیشہ

اللہ سلامت رکھے تیرے لب شیریں
سنوایا کرے باتیں مزے دار ہمیشہ

ہے ڈر سے ترے عالم بالا تہ و بالا
لٹکے ہے تری عرش پہ تلوار ہمیشہ

جوں حلقۂ در در پہ ترے صبح سے تا صبح
رہتا ہے ترا طالب دیدار ہمیشہ

اظہار کروں جس سے میں احوال کو اپنے
احوال تباہ اس کا رہے یار ہمیشہ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.