مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
by ولی عزلت

مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
کہ دل دہندہ جیو یا مرو ہوا سو ہوا

جلا دیا جو پتنگ اب نہ رو ہوا سو ہوا
اے شمع صبح کو جو ہو سو ہو ہوا سو ہوا

دل اس کوں دے چکا دیوانگی نہ چھوڑوں گا
اے طفلو پتھروں سے مارو ہنسو ہوا سو ہوا

مجھے رلا کے خوں آنسو نہ پونچھ خوف یہ ہے
تو ہاتھ میرے لہو سے نہ دھو ہوا سو ہوا

بچھائیں پلکیں جو میں نے نہ آیا کہہ بھیجا
اب آگے راہ میں کانٹے نہ بو ہوا سو ہوا

کیا ہے قتل جو عزلتؔ کو اب نہ رو اے یار
کہ سر پہ حسن پرستوں کے جو ہوا سو ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse