مرے مقدر میں جو لکھا تھا نصیب سے وہ پہنچ نہ پایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے مقدر میں جو لکھا تھا نصیب سے وہ پہنچ نہ پایا
by ناطق لکھنوی

مرے مقدر میں جو لکھا تھا نصیب سے وہ پہنچ نہ پایا
گرا تو تھا آسمان سے کچھ کھجور میں رہ گیا اٹک کر

مصیبت آ تو گئی تھی لیکن ہوئی وہ آپ الٹے پاؤں رخصت
لگا جو تھا زندگی کا کانٹا نکل گیا چار دن کھٹک کر

وہاں ہیں اب ہم کہ کیا بتائیں وہ پیچ و خم ہیں کہ کچھ نہ پوچھو
یہ چال راہ طلب کی دیکھو کہ چل رہی ہے مٹک مٹک کر

یہ کیسی وحشت اثر خبر ہے پتا تو اے باغباں لگانا
کھڑے ہوئے کان کیوں گلوں کے کلی نے کیا کہہ دیا چٹک کر

کیا جو ڈر ڈر کے عرض مطلب تو مجھ سے یہ کہہ دیا انہوں نے
سبق نہیں یاد ابھی یہ تم کو سنا رہے ہو اٹک اٹک کر

خود اپنا رستہ سدھار ناطقؔ نہ فکر کر شیخ و برہمن کی
وہیں تو جاتے ہیں راستے سب کوئی کہاں جائے گا بھٹک کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse