مرے عیبوں کی اصلاحیں ہوا کیں بحث دشمن سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے عیبوں کی اصلاحیں ہوا کیں بحث دشمن سے
by حفیظ جونپوری

مرے عیبوں کی اصلاحیں ہوا کیں بحث دشمن سے
لیا ہے راہبر کا کام اکثر میں نے دشمن سے

وہ موتی ہوں جو کھو جاتا ہے ساحل میں سمندر کے
وہ دانہ ہوں بکھر کے دور ہوتا ہے جو خرمن سے

فضا صحرا کی آنکھوں سے جو دیکھیں ہیں وہ کہہ دیں گے
گل خود رو کا عالم کم نہیں گلہائے گلشن سے

کسی کی دوستی یوں خاک میں کوئی ملاتا ہے
مرے بارے میں تم اور مشورے لیتے ہو دشمن سے

تماشا دیکھیے محشر میں قاتل مجھ سے لڑتا ہے
کہ اپنے خون کا دھبہ چھڑا دے میرے دامن سے

زمیں سے آسماں تک چھا رہی جو یہ اداسی ہے
بگولہ کوئی اٹھا ہے کسی بیکس کے مدفن سے

قریب در پہنچ کر یوں غش آنے کا سبب آخر
یہ ممکن ہے جھلک اس کی نظر آئی ہو چلمن سے

ہر آفت سے چمن محفوظ ہے اب تو یہ سنتا ہوں
عداوت برق صرصر کو تھی میرے ہی نشیمن سے

غرض کیا بحث و حجت سے ہمارا تو یہ مشرب ہے
جہاں تک ہو کنارے ہی رہے شیخ و برہمن سے

حفیظؔ اس کو سمجھ لے خوب ہیں یہ کام کی باتیں
اگر رفعت طلب ہے جھک کے مل ہر دوست دشمن سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse