مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں
by حیدر علی آتش

مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں

نہ تجھے دماغ نگاہ ہے نہ کسی کو تاب جمال ہے
انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں

کسے نیند آتی ہے اے صنم ترے طاق ابرو کی یاد میں
کبھی آشنائے تہ بغل سر مرغ قبلہ نما نہیں

عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیال دشمن و دوست ہے
وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں

یہ خلاف ہو گیا آسماں یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی
کہیں گل کھلے بھی تو بوند سے کہیں حسن ہے تو وفا نہیں

مرض جدائی یار نے یہ بگاڑ دی ہے ہماری خو
کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں

مجھے زعفران سے زرد تر غم ہجر یار نے کر دیا
نہیں ایسا کوئی زمانہ میں مرے حال پر جو ہنسا نہیں

مرے آگے اس کو فروغ ہو یہ مجال کیا ہے رقیب کی
یہ ہجوم جلوۂ یار ہے کہ چراغ خانہ کو جا نہیں

چلیں گو کہ سیکڑوں آندھیاں جلیں گرچہ لاکھ گھر اے فلک
بھڑک اٹھے آتشؔ طور پھر کوئی اس طرح کی دوا نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse