مرے دل میں ہے کہ پوچھوں کبھی مرشد مغاں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے دل میں ہے کہ پوچھوں کبھی مرشد مغاں سے
by عبد المجید سالک

مرے دل میں ہے کہ پوچھوں کبھی مرشد مغاں سے
کہ ملا جمال ساقی کو یہ طنطنہ کہاں سے

وہ یہ کہہ رہے ہیں ہم کو ترے حال کی خبر کیا
تو اٹھا سکا نگاہیں نہ بتا سکا زباں سے

جو انہیں وفا کی سوجھی تو نہ زیست نے وفا کی
ابھی آ کے وہ نہ بیٹھے کہ ہم اٹھ گئے جہاں سے

میں عدم کے لالہ زاروں میں نواگر ازل تھا
مجھے کھینچ لائی ظالم تری آرزو کہاں سے

مری سر نوشت میں تھا وہی داغ نامرادی
جو ملا مری جبیں کو ترے سنگ آستاں سے

بچے بجلیوں کی زد سے وہی طائران دانا
جو کڑک چمک سے پہلے نکل آئے آشیاں سے

یہ ہے ماجرائے وحشت کہ ملا سراغ محمل
نہ غبار کارواں سے نہ درائے کارواں سے

نہیں کچھ سمجھ میں آتا یہ عجیب ماجرا ہے
کہ زمیں کے رہنے والوں کو ہدایت آسماں سے

شب غم جو آئی سالکؔ مٹے باطنی اندھیرے
مرا دل ہوا منور تب و تاب جاوداں سے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.