مرے دل بیچ نقش نازنیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے دل بیچ نقش نازنیں ہے
by فائز دہلوی

مرے دل بیچ نقش نازنیں ہے
مگر یہ دل نہیں یارو نگیں ہے

کمر پر تیری اس کا دل ہوا محو
ترا عاشق بہت باریک بیں ہے

جو کہیے اس کے حق میں کم ہے بے شک
پری ہے حور ہے روح الامیں ہے

غلام اس کے ہیں سارے اب سریجن
نگر میں حسن کے کرسی نشیں ہے

نہیں اب جگ میں ویسا اور پیتم
سبی خوش صورتاں سوں نازنیں ہے

مجھے ہے موشگافی میں مہارت
جو نت دل محو خط عنبریں ہے

نظر کر لطف کی اے شاہ خوباں
ترا فائزؔ غلام کم تریں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse