مرے دانتوں کی عمر اے آرزو مجھ سے بھی چھوٹی تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے دانتوں کی عمر اے آرزو مجھ سے بھی چھوٹی تھی
by شاد عظیم آبادی

مرے دانتوں کی عمر اے آرزو مجھ سے بھی چھوٹی تھی
اسی نے ساتھ چھوڑا دانت کاٹی جن سے روٹی تھی

شکایت آرزو کی بے کئے ناصح نہیں بنتی
یہ سب دل جوئیاں ظاہر کی تھی باطن کی کھوٹی تھی

ہوا در در لیے پھرتی ہے اب تو میری مٹی کو
یہ ہے وہ خاک جو اک دن ترے قدموں پہ لوٹی تھی

بہت گہرے نہ ہوں اوچھے سہی چرکے تو پورے ہیں
خطا قاتل کی کیا ہے اک درا تلوار چھوٹی تھی

پہاڑ اس پر گرا اے آسماں کیا بس چلے ورنہ
ہمارے آشیاں کی شاخ سب شاخوں سے موٹی تھی

بلا کر تو نے اے ہستی یہاں کی خوب مہمانی
وہی کرتے ہیں فاقے جن کے دم سے دس کی روٹی تھی

پہنچ جاتی تھی اس اس گھر میں جس جس گھر کا پاسا تھا
جو سچ پوچھو تو میری آرزو چوسر کی گوٹی تھی

نہ کیوں کر تیری یکتائی کا کلمہ نقش ہو دل پر
سبق کی طرح برسوں یہ عبارت ہم نے گھوٹی تھی

مجھے خوش خوش جو پایا جل کے کیا جلدی ہوئی رخصت
شب وصل اے فلک سب کچھ سہی نیت کی چھوٹی تھی

یہ سچ ہے شادؔ کیا تھا کچھ نہ تھا لیکن تمہارا تھا
نہ سمجھا تم نے اے باریک بینو بات موٹی تھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse