مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا
پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا
وہ سر مزار ہوتا میں تہہ مزار ہوتا
ترا مے کدہ سلامت ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اترتا مجھے کیوں خمار ہوتا
میں ہوں نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا
نہیں پوچھتا ہے مجھ کو کوئی پھول اس چمن میں
دل داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا
وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
مرے دونوں پہلوؤں میں دل بے قرار ہوتا
دم نزع بھی جو وہ بت مجھے آ کے منہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرمسار ہوتا
نہ ملک سوال کرتے نہ لحد فشار دیتی
سر راہ کوئے قاتل جو مرا مزار ہوتا
جو نگاہ کی تھی ظالم تو پھر آنکھ کیوں چرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا جو جگر کے پار ہوتا
میں زباں سے تم کو سچا کہو لاکھ بار کہہ دوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا
مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیرؔ باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |