مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
by امیر مینائی

مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا
وہ سر مزار ہوتا میں تہہ مزار ہوتا

ترا مے کدہ سلامت ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اترتا مجھے کیوں خمار ہوتا

میں ہوں نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

نہیں پوچھتا ہے مجھ کو کوئی پھول اس چمن میں
دل داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا

وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
مرے دونوں پہلوؤں میں دل بے قرار ہوتا

دم نزع بھی جو وہ بت مجھے آ کے منہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرمسار ہوتا

نہ ملک سوال کرتے نہ لحد فشار دیتی
سر راہ کوئے قاتل جو مرا مزار ہوتا

جو نگاہ کی تھی ظالم تو پھر آنکھ کیوں چرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا جو جگر کے پار ہوتا

میں زباں سے تم کو سچا کہو لاکھ بار کہہ دوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیرؔ باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse